سائنسی تحقیق اور حدیث میں تطبیق!!!

بخاری شریف کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ پیٹ میں موجود بچے میں چار ماہ بعد روح پھونکی جاتی ہے۔

مفتی انس عطاری صاحب اس حدیث پر ہونے والے ایک اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

یہاں یہ اشکال آتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ چھٹے ہفتے میں بچے کا دل دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے کیا بچے کا دل ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس میں چار ماہ سے قبل جان پڑ چکی ہوتی ہے۔

اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ دل کا دھڑکنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس میں جان پڑ چکی ہے کیونکہ چار ماہ سے قبل جو بچہ بڑھتا ہے تو یہ بڑھنا پودوں کی طرح ہے جیسے پودے بے جان ہیں لیکن بڑھتے ہیں ، جبکہ نفحِ روح یعنی چار ماہ بعد جان پڑنے کے بعد بچے کی حرکت حسی و ارادی ہوتی ہے۔ لہذا سائنس کا یہ کہنا کہ چھٹے ہفتے میں دل بن جاتا ہے منافیِ حدیث نہیں کہ احادیث بھی اس بات پر نشاندھی کر رہی ہیں کہ 40 دن بعد اجزا کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔

علمائے کرام کی اکثریت اس طرف ہے کہ اجزا میں سب سے پہلے دل بنتا ہے۔ چنانچہ “فتح الباری ج11 ص482” میں ہے۔

” اس میں علما کا اختلاف ہے کہ جنین میں سب سے پہلے کون سی شکل بنتی ہے تو کہا گیا دل بنتا ہے کہ وہ حرکت غریزیہ کی اصل ہے۔”

(شرح مشکوٰۃ ج1 ص404)

غلام رضا

03-08-2020ء