نقشے میں جوناگڑھ کو کیوں شامل کیا گیا؟
آصف محمود
پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نقشے پر ایک اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اس میں جونا گڑھ کو کیوں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے اس کی معنویت کی وجہ سے۔ اس اقدام میں جہان معنی پوشیدہ ہے ۔ آپ جوں جوں جوناگڑھ پر غور کرتے چلے جاتے ہیں، مسئلہ کشمیر کی تفہیم کی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔

جونا گڑھ کو کشمیر سے ایک خاص نسبت ہے۔ کشمیر پر بھارتی موقف کو جونا گڑھ کا تذکرہ پیاز کی پرتوں کی طرح چھیل کر پھینک دیتا ہے۔آئیے انتہائی اختصار کے ساتھ پہلے حالات و واقعات کا ایک جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد چند سوالات پر غور کریں گے۔

15 اگست 1947 کو جونا گڑھ کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے اس فیصلے کو باضابطہ طور پر قبول کیا اور 12 ستمبر 1947 کو بھارت کو سرکاری سطح پر اس الحاق سے آ گاہ کر دیا۔بھارت نے اس الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارت کے تین بڑے اعتراضات تھے جو بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ نے یوں بیان کیے۔

اول: جونا گڑھ کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے اس لیے اس کا پاکستان سے الحاق غیر منطقی ہے۔

دوم: جونا گڑگ جغرافیائی طور پر بھارت سے جڑا ہے اس لیے اسے بھارت کا حصہ بننا چاہیے۔

سوم: مسلمان مہاراجہ کو فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ جوناگڑ ھ کے عوام ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔

چنانچہ بھارت نے 17ستمبر 1948کو جوناگڑھ میں اپنے دستے اتار دیے۔ پھر پولیس اسٹیشن قائم کیا اور پھر فوجی قبضہ کر لیا ۔ قبضے کے بعد ’استصواب رائے“ کا تماشا کیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ عوام نے بھارت کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔

اس مختصر ترین پس منظر کے بعد اب آئیے چند اہم سوالات کی جانب۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اگر جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق اس لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی 80 فیصدآبادی ہندو ہے تو کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے، کشمیر کی غالب آبادی بھی تو مسلمانوں پر مشتمل تھی۔پوری ریاست میں مسلمانوں کا تناسب 78 فیصد تھا اور وادی میں 93 فیصد مسلمان تھے۔جونا گڑھ والا فارمولا کشمیر میں کیوں نہیں لاگو کیا جا سکا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جونا گڑھ کی قسمت کا فیصلہ مہاراجہ کی بجائے عوام سے کروانے کے اصول پر بھارت کو ضد تھی تو اسی اصول کا اطلاق اس نے کشمیر پر کیوں نہیں کیا؟ کشمیر میں عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیوں نہیں کیا جا رہا؟

پندرہ اگست 1947 کو جب جوناگڑھ کے مہاراجہ نے پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو اس کے پاس مکمل اقتدار تھا۔ وہ وہاں کا حاکم تھا۔ اس کی عملداری قائم تھی۔ اس کے خلاف کوئی بغاوت نہیں ہوئی تھی۔ اس نے پورے اختیار اور اقتدار کے ساتھ اپنے پایہ تخت میں بیٹھ کر پاکستان سے الحاق کیا۔ دوسری جانب کشمیر کے مہاراجہ نے جب بھارت سے الحاق کیاتو وہ اقتدار سے محروم ہو چکا تھا۔ اس کے خلاف بغاوت پھوٹ چکی تھی۔ وہ اپنا پایہ تخت چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہ بھی اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کشمیر میں پہلے بھارتی فوج اتری اور بھارت کے قبضے کے بعدمہاراجہ نے الحاق پر دستخط کیے۔ جونا گڑھ کے مہاراجہ نے جب پاکستان سے الحاق کیا تو جونا گڑھ میں پاکستان کا ایک فوجی بھی موجود نہیں تھا۔ تیسرا سوال گویا یہ ہوا کہ بھارت کے نزدیک اگرجونا گڑھ کے مہاراجہ کا الحاق نا معتبر تھا تو کشمیر کے مہاراجہ کا الحاق معتبر کیسے ہو گیا؟

چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق اس لیے ماؤنٹ بیٹن کو قبول نہیں تھا کہ جونا گڑھ جغراافیائی طور پر بھارت کے قریب تھا تو جناب قبلہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن صاحب اسی اصول کا اطلاق کشمیر پر کرنے پر کیوں تیار نہ ہوئے؟ وہ اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہ کر سکے کہ کشمیر جغرافیائی طور پر پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔

پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے جارحیت کی۔ پاکستان کا معاملہ یہ تھا کہ کشمیر میں مہاراجہ کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔بھارتی فوج سری نگر میں اتر چکی تھی اور قبضہ پہلے ہوا الحاق کی دستاویز بعد میں تیار ہوئی۔جونا گڑھ میں تو ایسا کچھ نہ تھا۔ نہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت تھی، نہ پاکستان نے وہاں فوجین اتاری تھیں لیکن پھر بھی بھارت وہاں جا گھسا۔ پانچواں سوال گویا یہ ہوا کہ جارحیت کس نے کی؟پاکستان نے یا بھارت نے؟ کشمیر میں بھارت نے پہلے فوجیں اتاریں اور قبضہ کرنے کے بعد مہاراجہ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کروایے اور جونا گڑھ میں بھارت نے اس وقت فوجیں اتاریں جب جوناگڑھ کی ریاست پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر چکی تھی، پاکستان اس فیصلے کو تسلیم کر چکا تھا اور بھارت کو اس بابت بتا دیا گیا تھا کہ جونا گڑھ اپنا فیصلہ کر چکا اور اب پاکستان کا حصہ ہے۔تو پھر امن دشمن کون ہوا اور جارحیت کا ارتکاب کس نے کیا؟

انٹر نیشنل لاء کے مطابق جونا گڑھ پاکستان کا حصہ تھا اور پاکستان کے اس حصے پر بھارت قابض ہے۔ پاکستان سے غلطی ہوئی کہ اس نے آج تک اپنے نقشے میں جونا گڑھ کو شامل نہیں۔ عمران خان کی حکومت نے اس غلطی کی اصلاح کر دی ہے۔

یہ اصلاح بھی ہے، تازیانہ بھی اور ایک تذکیر بھی۔ یہ اس مفلوج ذہنیت پر ایک تازیانہ بھی ہے جو اٹھتے بیٹھتے ”مطالعہ پاکستان“ کی اصطلاح کو بطور طعنہ استعمال استعمال کرتی ہے۔

یہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک تذکیر بھی ہے کہ ایک ریاست جونا گڑھ بھی پاکستان کا حصہ تھی جس پر ستمبر 1947 سے پاکستان کا قبضہ ہے۔ اور اس سب سے بڑھ کر یہ کشمیر کے مقدمے میں پیش کی گئی ایک ایسی گواہی بھی ہے جس کا انکار نہ بھارت کر سکتا ہے نہ تاریخ۔

جسے اب بھی سمجھ نہ آ رہی ہو کہ جونا گڑھ کو اس نقشے میں کیوں شامل کیا گیا وہ چاہے تو اس کالم کو دوبارہ پڑھ لے، چاہے تو کسی اچھے سے نفسیاتی معالج سے رجوع کر لے۔