أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا كَانَ عَلَى النَّبِىِّ مِنۡ حَرَجٍ فِيۡمَا فَرَضَ اللّٰهُ لهٗ ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِى الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَا ۞

ترجمہ:

اور نبی پر اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرما دیا ہے ‘ یہ اللہ کا دستور ہے جو ان امتوں میں بھی رہا ہے جو پہلے گزرچکی ہیں اور اللہ کے کام مقرر شدہ اندازوں پر ہوتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور نبی پر اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمادیا ہے ‘ یہ اللہ کا دستور ہے جو ان امتوں میں بھی رہا ہے جو پہلے گزر چکی ہیں ‘ اور اللہ کے کام مقرر شدہ اندازوں پر ہوتے ہیں جو لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے (الاحزاب : ٣٩۔ ٣٨)

حضرت زینب سے نکاح میں مسلمانوں کے لیے نمونہ اور آسانی 

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حضرت زینب سے نکاح کو مقدر فرمادیا تھا ‘ سو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس نکاح کو کرنا قضا و قدر کے مطابق تھا ‘ اور نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں میں مشروع فرماچکا ہے ‘ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کرنا درست نہیں ہے کہ جب آپ کے عقد میں پہلے سے ازواج مطہرات موجود تھیں تو پھر آپ نے حضرت زینب سے نکاح کیوں کیا ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) کے عقد میں سو بیویاں تھیں اور ان کے پاس تین سو کنیزیں تھیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عقد میں تین سو بیویاں تھیں اور سات سو کنیزیں تھیں۔ (الجامع لاکا القرآن جز ١٤ ص ١٧٧‘ روح المعانی جز ٢٢ ص ٣٩‘ روح البیان ج ٧ ص ٢١٧) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے معاملہ میں انبیاء (علیہم السلام) پر کوئی تنگی نہیں رکھی اور اس معاملہ میں ان کو وسعت حاصل رہی ہے ‘ اور ایمان کے بعد دنیا کی عبادات میں سے صرف نکاح ہی ایسی عبادت ہے جو جنت میں بھی حاصل ہوگی۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں سے صرف تین چزیوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی ہے ‘ خوشبو ‘ عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٤٩ )

قدراً مقدوراً معنی 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کام قدر مقدور ہیں ‘ اس سے قضاء و قدر کی طرف اشارہ ہے ‘ قدر سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا جو علم ازل میں ہے ‘ اور قضاء سیمراد ہے اللہ تعالیٰ کا اس علم کو لوح میں لکھ کر محفوظ کرلینا ‘ ہر چیز جو تدریجاً وقوع پذیر ہو رہی ہے وہ مقدو رہے ‘ اور اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی یا ولی کے لیے کسی کام کو مقدر فرما دیتا ہے تو خواہ بہ ظاہر اس میں کوئی حرج یا نقصان ہو لیکن حقیقت میں اس میں کوئی حرج یا نقصان نہیں ہوتا ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب کا نکاح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقدر کردیا تھا ‘ بہ ظاہر یہ نکاح بعض منافقوں کے طعن وتشنیع کا سبب بنا کہ آپ نے حضرت زید کو اپنا بیٹا نہیں ہوتا ‘ اور اس کی مطلقۃ بیوی سے نکاح کرنا حقیقی بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنے کی طرح نہیں ہے ‘ اور اس میں عام مسلمانوں اور مومنوں کے لیے یہ نمونہ اور یہ ہدایت ہے کہ وہ منہ بولے بیٹے کے اوپرحقیقی بیٹے کے احکام جاری نہ کریں اور منہ بولے بیٹے کو نسبی بیٹا نہ قرار دیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 38