أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ ؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيۡنًا ۞

ترجمہ:

اور نہ کسی مومن مرد اور نہ کسی مومن عورت کے لیے یہ جائز ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ فرما دیں تو ان کے لیے اپنے اس کام میں کوئی اختیار ہو ‘ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو بیشک وہ کھلی ہوئی گم راہی میں مبتلا ہوگیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور نہ کسی مومن مرد اور نہ کسی مومن عورت کے لے یہ جائز ہے کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی کام کا فیصلہ فرمادیں تو ان کے لیے اپنے اس کام میں اختیار ہو اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو بیشک وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا (الاحزاب : ٣٦)

حضرت زینب بنت حجش (رض) کا غیر کفو میں نکاح ہونا 

یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی حضرت زینب بنت حجش اور ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن حجش (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ (رض) کے لیے ان کو نکاح کا پیغام دیا تھا ‘ اور فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارا زید بن حارثہ سے نکاح کردوں ‘ کیونکہ میں نے ان کو تمہارے لیے پسند کرلیا ہے ‘ حضرت زینب بنت حجش نے اس کا انکار کیا اور کہا یارسول اللہ ! لیکن میں اپنے لیے زید کو ناپسند کرتی ہوں ‘ میں اپنی قوم کی بےنکاح عورت ہوں اور آپ کی پھوپھی کی بیٹی ہوں سو میں اس نکاح کے لیے تیار نہیں ہوں۔

دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا میں خاندانی شرافت کے لحاظ سے زید سے افضل ہوں ‘ اور ان کے بھائی عبداللہ نے بھی ان کی موافقت کی پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ دونوں اس نکاح پر راضی ہوگئے اور تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب کا حضرت زید سے نکاح کردیا ‘ اور ان کے مہر میں دس دینار ‘ ساٹھ درہم ‘ ایک دوپٹہ ‘ ایک قمیض ‘ ایک چادر ‘ ایک لحاف ‘ ٢٥ کلو گرام طعام اور ایک سو بیس کلو گرام کھجوریں مقرر فرمائیں۔(جامع البیان جز ٢٢ ص ١٧۔ ١٦‘ الکشف و البیان جز ٨ ص ٤٧۔ ٤٦‘ روح المعانی جز ٢٢ ص ٣٤‘ احکام القرآن ج ٣ ص ٥٧٤)

قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ اور علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد المالکی القرطبی المتوفی ٦٦٨ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت زینب بن حجش نسباً قریش تھیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے وہ بنو اسد سے تھیں۔(احکام القرآن ج ٣ ص ٥٧٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ ‘ الجامع الا حکام القرآن جز ١٤ ص ٦٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کے متلعق نازل ہوئی ہے ‘ وہ سب سے پہلی خاتون تھیں جنہوں نے خواتین میں سے ہجرت کی تھی ‘ انہوں نے خود و نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا تھا ‘ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نکاح حضرت زید بن حارثہ (رض) سے کردیا ‘ اس پر وہ اور ان کے بھائی ناراض ہوئے اور کہا ہم نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ کیا تھا اور آپ نے اپنے غلام سے نکاح کردیا ‘ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر امام ابن ابی اتم رقم الحدیث : ١٧٦٨٧‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے بعد مسلمانوں کے اختیار کی نفی فرمائی ہے اس سے علماء اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ امر کا تقاضا وجوب ہے۔

نکاح غیر کفو میں مذاہب ائمہ 

علامہ ابوبکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی المالکی الاندلسی المتوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں تصریح ہے کہ کفو میں حسب و نسب (خاندان) کا اعتبار نہیں کیا جاتا ‘ کفو میں صرف دین کا اعتبار کیا جاتا ہے ‘ اس مسئلہ میں امام مالک اور امام شافعی کا اختلاف ہے ‘ کیونکہ آزاد شدہ غلاموں کا غیر خاندان میں نکاح ہوا ہے ‘ حضرت زید بن حارثہ (رض) کا حضرت زینب بنت حجش سے نکاح ہوا یہ بنو اسد سے تھیں ‘ حضرت مقداد بان اسود کا نکاح ‘ حضرت ضباعہ بنت الزبیر سے ہوا یہ ہاشمیہ تھیں ‘ اور حضرت سالم مولی ابو حذیفہ کا نکاح ھند بنت الولید بن عتبہ بن ربیعہ سے ہوا یہ قرشیہ تھیں۔(احکام القرآن ج ٣ ص ٥٧٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے اس عبارت کو نقل کیا ہے۔(الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٧٠۔ ١٦٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

امام مالک کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ جب لڑکی یا اسکا ولی یا سلطان یا قاضی غیر کفو میں نکاح پر راضی ہوں تو یہ نکاح اور اس کا ولی غیر کفو میں نکاح پر راضی ہوں تو یہ نکاح جائز ہے۔ (کتاب الام ج ٥ ص ٥‘ دارالمعرفہ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

امام احمد کے مسئلہ کفو میں دو قول ہیں ‘ ایک قول کی مطابق کفو کا نکاح میں ہونا شرط ہے اور دوسرے قول کے مطابق نکاح میں کفو کا ہونا شرط نہیں ہے۔ (المغنی ج ٧ ص ٢٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)

جمہور فقہاء احناف کے نزدیک اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے غیر کفو میں نکاح کرلیا تو اس کے ولی کو اس پر اعتراض کا حق ہے اور ان کو حق ہے کہ وہ عدالت سے اس نکاح کو فسخ کرالیں ‘ لیکن اگر ان کو اس نکاح پر اعتراض نہ ہو تو پھر یہ نکاح جائز ہے۔(المبسوط للسر حسی ج ٥ ص ٤٦‘ دارالمعرفہ ‘ قاضی اعلی ہامش الھندیہ ج ١ ص ٣٥١‘ فتح القدیر ج ٣ ص ١٨٦‘ سکھر)

نیز علامہ سید ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

علامہ نوح نے حاشیہ درر میں لکھا ہے کہ امام ابو الحسن الکرخی اور امام ابو بک جصاص یہ ونوں عراق کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے اور جو مشائخ عراق ان کے بابع ہیں ان سب نے کہا ہے کہ نکاح میں کفو کا اعتبار نہیں ہے اور اگر ان اماموں کے نزدیک امام ابوحنیفہ کا ایسا قول نہ ہوتا تو وہ اس قول کو اختیار نہ کرتے۔ (ردالمختار ج ٤ ص ١٥٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

نکاح غیر کفو کے متعلق احادیث 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کو وہ شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور خلق پر تم راضی ہو تو اس سے تم (اپنی لڑکی کا) نکاح کردو اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو زمین میں فتنہ ہوگا اور بہت بڑا فساد ہوگا۔ ( الجامع الصحیح رقم الحدیث : ١٠٨٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٦٧‘ سنن کبری ج ٧ ص ٨٢‘ المستدرک ج ٢ ص ٦٤‘ مراسیل ابو دائود ص ١١‘ کنزلعمال رقم الحدیث : ٤٤٦٩٥‘ مصابیح النتہ رقم الحدیث : ٢٢٩٥)

امام عبدالرزاق بن ہمام متوفی ٢١١ ھ نے اس حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے :

یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے پاس وہ شخص آئے جس کی امانت اور خلق پر تم راضی ہو تو اس کے ساتھ نکاح کردو خواہ وہ کوئی شخص ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ ہوگا اور بہت بڑا فساد ہوگا۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٠٣٢٥‘ ج ٦ ص ١٥٣۔ ١٥٢ )

امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) روایتک رتی ہیں کہ حضرت ابو عمر و بن حفص (رض) نے مجھے طلاق دے دی درآں حالیکہ وہ غائب تھے۔ ان کے وکیل نے حضرت فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے وہ ناراض ہوگئیں وکیں نے کہا بہ خدا تمہارا ہم پر اور کوئی حق نہیں ہے ‘ حضرت فاطمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئیں اور یہ واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا تمہارا اس پر کوئی نفقہ واجب نہیں ہے پھر آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر عدت گزاریں ‘ پھر فرمایا ان کے ہاں تو میرے اصحاب آتے رہتے ہیں تمابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہے تم آرام سے اپنے کپڑے رکھ سکو گی اور جب تمہاری عدت پوری ہوجائے تو مجھے خبر دینا وہ کہتی ہیں کہ جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے آپ کو بتایا کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت ابو جہم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابو جہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتار تا ہی نہیں اور رہے معاویہ تو وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے ‘ تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو ‘ میں نے ان کو ناپسند کیا آپ نے پھر فرمایا اسامہ سے نکاح کرلو ‘ میں نے ان سے نکاح کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں بہت خیر کی اور عورتیں مجھ پر رشک کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٨٠‘ جامع ترمذی رقم الحدیث : ١١٣٥‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣٨٤‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٤١٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٦٩‘ موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٢٣٤‘ مسند احمد ج ٦ ص ٤١٢)

حضرت فاطمہ بنت قیس قریش کے ایک معزز گھرانے کی خاتون تھیں۔ حضرت اسامہ بن زید (رض) غلام زادے تھے ان کے کفو نہ تھے ‘ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نکاح کر کے یہ واضح کردیا کہ غیر کفو میں نکاح جائز ہے اور بسا اوقات اس میں بڑی خیرہوتی ہے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس کے بیٹے ابو حذیفہ جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ‘ حضرت ابو حذیفہ نے سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا ‘ سالم ایک انصاری عورت کے غلام تھے ‘ حضرت ابو حذیفہ نے سالم کے ساتھ اپنی سگی بھتیجی ہند بنت الولید بن عتبہ بن ربیعہ کا نکاح کردیا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٠٨٨‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٢٨٠‘ مصنف عبدالرزاق ج ٦ ص ١٥٥‘ سنن کبری بہیقی ج ٧ ص ١٣٧)

اس حدیث میں بھی یہ مذکور ہے ایک آزاد قرشیہ کا نکاح ایک غلام سے کیا گیا۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی عورت کے ساتھ چارو جوہ سے نکاح کیا جاتا ہے ‘ اس کے مال کیوجہ سے ‘ اس کے خاندانی ماسن کی وجہ سے ‘ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے ‘ سو تم اس کی دین داری میں کوشش کرو تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں۔

صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٠٩٠ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٦٦‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٠٤٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٥٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٢٨‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢١٧٦‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٥٧٨‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٠٣٦‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٢٢٤٠‘ السنن الکبری للبیھقی ج ٧ ص ٧٩‘ سنن سعید بن منصور رقم الحدیث : ٥٠٦‘ مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٤٠٨٢‘ حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص ٣٨٣‘ المطالب العالیہ رقم الحدیث : ١٥٧٠)

غیر ہاشمی اور غیر سیدہ کا ہاشمیہ یا فاطمی سیدہ سے نکاح 

علامہ سیدمحمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

علامہ حامد آفندی حنفی سے سوال کیا گیا کہ ایک ہاشمی شخص نے دانستہ اپنی مرضی سے اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح ایک غیر ہاشمی شخص سے کردیا آیا یہ نکاح صحیح ہے ؟ جواب ہاں اس صورت میں نکاح صحیح ہے۔ (تنقیح الفتاوی الحادیہ ج ١ ص ٢١‘ مطبوعہ کوئٹہ)

افضل اور انسب یہی ہے کہ کفو میں یعنی ایک جیسے خاندانوں میں نکاح کیا جائے تاکہ شوہر اور اور اس کی زوجہ کے درمیان ذہنی یگانگ رہے اور خاندان کی ناہمواری کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا نہ ہوں تاہم اگر کسی وقت کسی وجہ سے ماں باپ کسی مصلحت کی بناء پر غیر کفو میں رشتہ کردیں مثلا سیدہ کا غیر سید سے نکاح کردیں تو یہ نکاح جائز ہے۔

بعض سادات کرام نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسب کے فضائل میں جو احادیث وارد ہیں وہ بھی ان آیات کے عموم کے لیے مخصص ہیں اور سیدہ کا نکاح غیر سید سے حرام ہے۔ سادات کرام کا احترام اور اکرام مسلم ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ احادیث زیادہ سے زیادہ خبر واحد ہیں اور خبر واحد قرآن مجید کے عموم کے لیے ناسخ نہیں ہوسکتی ‘ بعض سادات کرام نے کہا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر آواز اونچی کرنا جائز نہیں ہے تو آپ کے نسب کے اوپر نسب کرنا کیسے جائز ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح سے یہ لازم نہیں آتا کہ شوہر کا نسب بیوی کی نسب سے اونچاہو جائے ورنہ کسی سید کا نکاح بھی سیدہ سے جائز نہیں ہوگا۔ نیز حضرت فاطمہ (رض) کی صاجزادیوں میں سے کسی صاجزادی کا نکاح تو یقیناً غیر فاطمی شخص سے ہوا ہے کیونکہ ہماری شریعت میں بھائی بہن کا نکاح جائز نہیں ہے جیسا کہ محرمات کے بیان میں گزر چکا ہے ‘ اس بحث میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہم یہ دعوت نہیں دیتے کہ غیر فاطمی سیدفاطمی سیدہ سے نکاح کریں نہ یہ ہمارا منصب اور حق ہے ہمارا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر کہیں یہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے تو اس کو حرام کہنے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ‘ اگر ہمارے کسی استدلال سے سادات کرام کی دل آزاری ہوئی ہے تو ہم ان سے معافی چاہتے ہیں اور سادات کرام کی محبت کو حرز ایمان سمجھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔ اگر اس نکاح کو حرام کہا جائے تو جس سیدہ خاتون نے اپنی مرضی یا اپنے والدین کی مرضی سے غیر سید سے نکاح کیا اس فاطمی سیدہ خاتون کو مرتکب حرام ‘ زانیہ اور اس کی اولاد کو ولدالزنا کہنا لازما آئے گا اور مانعین ایساکہتے بھی ہیں لیکن ہم شہزادی رسول اور سیدہ فاطمہ کی صاجزادی کے متعلق ایسا فتوی لگانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیدہ فاطمہ (رض) کو اذیت پہنچانے کے مترادف سمجھتے ہیں اور اس کو خطرہ ایمان گرادنتے یہں ‘ سو جو لوگ اس نکاح کو ناجائز اور حرام کہتے ہیں وہ نادانستگی میں شہزادی رسول کو زانیہ کہہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچا رہے ہیں۔ کسی بھی نکاح رجسٹرار کے ریکارڈ شدہ رجسٹر کو دیکھ لیں ملک کے طول و عرض میں غیر فاطمی سید کے فاطمی سیدہ سے نکاح کے بہت مندر جات مل جائیں گے ‘ آخر جس فاطمی سیدہ خاتون نے غیر سید سے نکاح کیا ہے وہ بھی تو بنت رسول ہے اس کو زنا کی گالی دینا کسی مسلمان کے لیے کسی طرح زیبا ہے کیا اسکا احترام اور اکرام واجب نہیں ہے۔ کیا اس کو گالی دینے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت نہیں پہنچے گی ؟ خدارا سوچیئے کہ ہم اس نکاح کے جواز کا فتوی دے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہزادیوں کی عزتوں کا تحفظ کررہے ہیں یا العیاذ باللہ ان کی توہین کررہے ہیں۔ مانعین اس نکاح کو حرام کہتے ہیں اور حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے تو جس سیدہ خاتون یا اس کے سادات والدین نے جائز سمجھ کر نکاح کردیا تو آپ کے نزدیک وہ العیاذ باللہ کافر ہوگئے اور کافر کا ٹھکانہ دوزخ ہے آخر آپ خون رسول و دوزخ میں کیوں پہنچانے کے درپے ہیں۔

غیر کفو میں نکاح کے جواز کے متعلق ہم نے یہاں نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ گفتگو کی ہے اور شرح مسلم میں اس پر بہت تفصیل کے ساتھ ہم نے کلام کیا ہے ‘ اس بحث کے لیے دیکھیں شرح صحیح مسلم ج ٣ ص ٩٨٧۔ ٩٦٤‘ ضمیمہ شرح صحیح مسلم ج ٣ ص ١١٨٤۔ ١١٥٩‘ شرح صحیح مسلم ج ٦ ص ١١٠٥۔ ١٠٢٣ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 36