أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكَ حُسۡنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ رَّقِيۡبًا ۞

 ترجمہ:

ان ازواج کے علاوہ مزید خواتین آپ کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ ان ازواج کو دوسری خواتین سے تبدیل کرنا (حلال ہے) خواہ ان کا حسن آپ کو پسند ہو ‘ ماسوا آپ کی کنیزوں کے ‘ اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان ازواج کے علاوہ مزید خواتین آپ کے لیے خلال نہیں ہیں اور نہ ان ازواج کو دوسری خواتین سے تبدیل کرنا (حلال ہے) خواہ ان کا حسن آپ کو پسند ہو ‘ ماسوا آپ کی کنیزوں کے۔ (الاحزاب : ٥٢ )

ازواج مطہرات کے علاوہ دیگر خواتین سے نکاح کرنے کی ممانعت کی توجیہ 

اس آیت کی تفسیر میں چھ قول ہیں :

(١) اس آیت کا حکم درج ذیل حدیث سے منسوخ ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک کہ آپ کے لیے تمام عورتیں حلال نہیں کردی گئیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢١٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٠٥‘ مسند احمد ج ٦ ص ٤١‘ سنن بیھقی ج ٧ ص ٥٤ )

(٢) النحاس نے کہا یہ آیت الاحزاب : ٥١ سے منسوخ ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کرتی تھیں اور میں کہتی تھی کہ کیا کوئی عورت اپنے آپ کو کسی پر پیش کرسکتی ہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

ترجی من تشآء منھن و تؤی الیک من تشآء ومنابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک ط (الاحزاب : ٥١) ان میں سے جس کو آپ چاہیں اپنے پاس سے دور کردیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں ‘ اور جن کو آپ نے الگ الگ رکھا ہے ان میں سے جس کو چاہیں طلب کرلیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٨٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٦٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٩٩)

(٣) الحسن اور ابن سیرین نے کہا چونکہ ازواج مطہرات نے اللہ عزوجل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور دار آخرت کو دنیا اور اس کی زیبائش پر ترجیح دی تھی اس کی جزاء میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے اوپر کسی اور زوجہ سے نکاح کرنے سے یا ان کو کسی اور زوجہ سے تبدیل کرنے سے منع فرمادیا ‘ اور بعد میں اس حکم کو منسوخ کر کے آپ کو دوسری ازواج کے ساتھ نکاح کرنے یا ان کو تبدیل کرنے کی اجازت دے دی ‘ سو الا حزاب : ٥١ ذکر میں مقدم ہے اور حکم میں الاحزاب : ٥٢ سے موخر ہے۔

(٤) ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے کہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کسی اور سے نکاح کرنے کو ازواج مطہرات پر حرام کردیا تھا ‘ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ان ازواج کے بعد کسی اور سے نکاح کرنے کو حرام کردیا ‘ بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا جیسا کہ گزر چکا ہے۔

(٥) حضرت ابی بن کعب ‘ عکرمہ اور ابورزین نے کہا اس آیت کا محمل یہ ہے کہ یہودیہ اور نصرانیہ سے نکاح کرنے کو آپ پر حرام کردیا تاکہ مشرکہ مسلمانوں کی ماں نہ بن جائے ‘ مگر یہ قول بعید ہے۔

(٦) محمد بن کعب القرظی نے کہا پہلے آپ کے لیے ہر عورت سے نکاح کرنا جائز تھا ‘ بعد میں اس حکم کو منسوخ کردیا ‘ یہ قول بھی صحیح نہیں ہے۔

نکاح سے پہلے عورت کے چہرے کو دیکھنے کا جواز 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خواہ ان کا حسن آپ کو پسند ہو ‘ اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ انسان جس عورت سے نکاح کا ارادہ کرے اس کے لیے اس عورت کو دیکھنا جائز ہے ‘ حدیث ہے :

بکر بن عبداللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو دیکھ لو تمہارے درمیان دائمی رفاقت کے لیے یہ زیادہ مناسب ہے۔(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٠٨٧‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٣٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٦٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٤ ص ٣٥٥‘ مسند احمد ج ٤ ص ٢٤٤‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢١٧٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا ‘ کیا تم نے اس عورت کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ‘ تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس کو دیکھ لیں۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٣٤)

امام مسلم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اس میں مکور ہے کہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز (کمی) ہوتی ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٢٤‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٥٣٤٨ )

علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ امام شافعی ‘ امام مالک ‘ امام ابوحنیفہ ‘ امام احمد اور جمہور علماء کے نزدیک یہ مستحب ہے کہ انسان نکاح کرنے سے پہلے اس خاتون کو دیکھ لے اور بہ وقت ضرورت عورت کے چہرے اور اس کے ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے ‘ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ عورت کی رضا اور اس کی اجازت سے اس کے چہرے کو دیکھا جائے ‘ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کو وہ عورت پسند نہ آئے اور جب اس کو معلوم ہوگا کہ اس کو مسترد کردیا گیا ہے تو اس کی دل شکنی ہوگی ‘ اس لیے اس عورت کی غفلت میں اس کو دیکھ لیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 52