أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تُرۡجِىۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُــئْوِىۡۤ اِلَيۡكَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَمَنِ ابۡتَغَيۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكَ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ تَقَرَّ اَعۡيُنُهُنَّ وَلَا يَحۡزَنَّ وَيَرۡضَيۡنَ بِمَاۤ اٰتَيۡتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَلِيۡمًا ۞

ترجمہ:

ان ازواج میں سے آپ جن کو چاہیں خود سے دور رکھیں اور جن کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں ‘ اور جس بیوی سے آپ الگ ہوچکے ہیں اگر آپ اس کو (پھر) طلب فرما لیں تو آپ پر کوئی تنگی نہیں ہے ‘ اس حکم سے یہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ غمگین نہیں ہوں گے اور وہ سب اس پر راضی رہیں گی جو آپ انہیں عطا فرمائیں گے ‘ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے ‘ اور اللہ بہت علم والا ‘ بےحد حلم والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان ازواج میں سے آپ جن کو چاہیں خود سے دور رکھیں اور جن کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں ‘ اور جس بیوی سے آپ الگ ہوچکے ہیں اگر آپ اس کو (پھر) طلب فرما لیں تو آپ پر کوئی تنگی نہیں ہے ‘ اس حکم سے یہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ سب اس پر راضی رہیں گی جو آپ انہیں عطا فرمائیں گے ‘ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ بہت علم والا ‘ بےحد حلم والا ہے۔ ان ازواج کی علاوہ مزید خواتین آپ کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ ان ازواج کو دوسری خواتین سے تبدیل کرنا (حلال ہے) خواہ ان کا حسن آپ کو پسند ہو ‘ ماسوا آپ کی کنیزوں کے ‘ اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (الاحزاب : ٥٢۔ ٥١ )

آیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ازواج میں باریوں کی تقسیم واجب تھی یا نہیں ؟

اس آیت میں ترجی کا لفظ ہے یہ ارجاء سے بنا ہے ‘ اس کا معنی ہے کسی چیز کو مؤخر کرنا ‘ یعنی ازواج میں سے آپ جس بیوی کی باری کو چاہیں مؤخر کردیں ‘ فرقہ مرجئہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اعمال کو مؤخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد معصیت سے ضرور نہیں ہوتا۔ اور اس آیت میں تؤوی کا لفظ ہے یہ ایواء سے بنا ہے اور اس کا معنی ہے جگہ دینا اور یہاں مراد ہے آپ جس بیوی کی باری کو چاہیں مقدم کردیں۔ یعنی آپ پر یہ واجب نہیں ہے کہ آپ باری باری ہر بیوی کے پاس رہیں ‘ آپ جس بیوی کی باری کو چاہیں مقدم کردیں۔ یعنی آپ پر یہ واجب نہیں ہے کہ آپ باری باری ہر بیوی کے پاس رہیں ‘ آپ جس بیوی کی باری کو چاہیں مقدم کردیں اور جس بیوی کی باری کو چاہیں مؤخر کردیں۔

علامہ ابوبکر بن العربی نے کہا یہی صحیح اور معتمد قول ہے کہ آپ پر بیویوں میں باری کو تقسیم کرنا واجب نہیں تھا اور اس معاملہ میں آپ کو اختیار تھا ‘ آپ چاہتے تو ان کے پاس باری باری رہتے اور آپ چاہتے تو اس تقسیم کو ترک فرما دیتے ‘ اور آپ نے ایام مرض میں دیگر ازواج سے حضرت عائشہ کے ہاں رہنے کی اجازت طلب کی تھی یہ آپ کا ان کے اوپر فضل تھا یہ آپ پر واجب نہیں تھا۔ لیکن آپ ازخودان میں باری تقسیم کرتے تھے ‘ تاکہ ازواج مطہرات کی دل جوئی ہو اور وہ ایک دوسرے کے خلاف غیرت نہ کریں جس کی وجہ سے وہ کسی نا مناسب کام میں مبتلا ہوں ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے آپ پر تقسیم واجب تھی پھر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اس کا وجوب منسوخ ہوگیا۔ ابورزین نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بعض ازواج مطہرات کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا آپ جس طرح چایں ہم میں باری تقسیم کریں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ ‘ حضرت حفصہ ‘ حضرت جویریہ ‘ حضرت ام حبیبہ ‘ حضرت میمونہ اور حضرت صفیہ (رض) کو آپ نے مؤخر رکھا۔ آپ جس طرح چاہتے تھے ان میں اپنی ذات کو تقسیم فرماتے تھے۔

ایک قول یہ ہے کہ جن کو آپ مؤخر کیا تھا اس سے وہ خواتین مراد ہیں جنہوں نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا تھا ‘ حضرت عائشہ (رض) سے اسی طرح ایک روایت ہے ‘ شعبی نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جن خواتین نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہے آپ ان میں سے جن سے چ ہیں نکاح فرمائیں اور جن سے چاہیں نکاح نہ فرمائیں ‘ زہری نے کہا ہم کو یہ علم نہیں کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو موخر کیا ہو بلکہ آپ نیسب کو اپنے پاس جگہ دی تھی ‘ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں طلاق دے دیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح میں برقرار رکھیں ‘ اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں ‘ اور ہر تقدیر پر معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ازواج کے معاملہ میں وسعت دی اور آپ پر کوئی چیزواجب نہیں کی اور اس آیت کی تفسیر میں زیادہ صحیح وہ قول ہے جسکو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ازواج کے درمیان باریاں تقسیم کرنا آپ پر واجب نہیں تھا۔

ازواج کی باریوں کے سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازواج کے درمیان جو تقسیم کرتے تھے اس میں عدل فرماتے تھے ‘ اور یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! یہ میری ان چیزوں میں تقسیم ہے جن کا میں مالک ہوں ‘ سو تو مجھے ان چیزوں کی تقسیم میں ملامت نہ فرماناجن کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں (یعنی ان کے درمیان محبت میں برابری سے تقسیم کرنا) ۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١١٤٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٥٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٧١‘ مصن ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٨٦‘ مسند احدم ج ٦ ص ١٤٤‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٢١٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٠٥‘ المستدرک ج ٢ ص ١٨٧‘ سنن بیھقی ج ٧ ص ٢٩٨)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیماری کے ایام میں فرماتے تھیـ‘ میں آج کہاں ہوں ؟ میں کل کس کے گھر ہوں گا ‘ آپ گمان فرماتے تھے کہ حضرت عائشہ کی باری بہت دیر میں آئے گی ‘ پھر جس دن میری باری تھی اور آپ میرے گھر میں تھے تو میرے سینہ اور پہلو کے درمیان اللہ تعالیٰ نے آپ کو روح کو قبض کرلیا اور میرے حجرے میں آپ کی تدفین ہوئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٨٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٣ )

عام مسلمانوں پر ازواج میں باریوں کی تقسیم کا وجوب 

مسلمانوں پر واجب ہے جس ان کی متعدد ازواج ہوں تو وہ ان میں مساوات سے تقسیم کریں اور باریاں مقرر کریںـ‘ حدیث میں ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے اوپر کنوری عورت سے نکاح کرے تو کنواری کے پاس سات دن رہے اور جب اپنی بیوی کے اوپر بیوہ سے نکاح کرے تو اس بیوہ کے پاس تین دن رہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١١٣٩ـ‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٢١٥‘ سنن البو دائو رقم الحدیث : ١٩١٦‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٨٢٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٠٨ــ‘ حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٢٣٣‘ سنن کبری للبیھقی ج ٧ ص ٣٠٢)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کسی شخص کے عقد میں دو بیویاں ہوں ‘ اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب ساقط ہوگی۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١١٤١‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٦٩‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٤ ص ٣٨٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٥‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٢١٢‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٠٧)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 51