أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَاۡتِيۡنَا السَّاعَةُ ؕ قُلۡ بَلٰى وَرَبِّىۡ لَـتَاۡتِيَنَّكُمۡۙ عٰلِمِ الۡغَيۡبِ ۚ لَا يَعۡزُبُ عَنۡهُ مِثۡقَالُ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَلَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرُ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞

ترجمہ:

اور کافروں نے کہا ہم پر قیامت نہیں آئے گی آپ کہیے کیوں نہیں ! مجھے اپنے رب کی قسم جو عالم الغیب ہے وہ تم پر ضرور آئے گی، اس سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی ہوئی نہی ہے نہ آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں، اور ہر چیز روشن کتاب میں ہے خواہ وہ ایک ذرہ سے چھوٹی ہو یا بڑی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کافروں نے کہ کا ہم پر قیامت نہیں آئے گی، آپ کہیے کیوں نہیں ! مجھے اپنے رب کی قسم جو عالم الغیب ہے وہ تم پر ضرور آئے گی، اس سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے نہ آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں اور ہر چیز روشن کتاب میں ہے، خواہ وہ ایک ذرہ سے چھوٹی ہو یا بڑی۔ تاکہ اللہ انہیں جزا دے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ان کے لئے مغفرت ہے اور معزز روزی یہ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں پر غالب آنے کی کوشش کی ان کے لئے درد ناک عذاب کی سزا ہے۔ (سبا 3-5)

وقوع قیامت پر دلائل 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ فرمایا تھا اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے، اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شرک، کفر اور برے اعمال پر آخرت کے عذاب سے ڈراتے تھے اور توحید و رسالت پر ایمان لانے اور نیک کام کرنے پر آخرت کے اجر وثواب کی بشارت دیتے تھے، یہ سن کر کفار مکہ کہتے تھے ہم قیامت نہیں آئے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تین دلیلوں سے قیامت کے آنے کو ثابت فرمایا :

(١) کفار مکہ آپ کو صادق مانتے تھے اور الصادق الامنی کہتے تھے اور آپ نے قسم کھا کر فرمایا : مجھے اپنے رب کی قسم ہے وہ ضرور آئے گی اور الصادق الامین قسم کھا کر جو بات کہے وہ غلط نہیں ہوسکتی۔

(٢) کفار قیامت کا اس لئے انکار کرتے تھے کہ مرنے کے بعد جب ان کے اجسام بوسیدہ ہوجائیں گے اور ان کے اجسام گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر ہوا ان ذرات کو اڑا کر دوسری جگہوں پر لے جائے گی اور یہ ذرات دور سے اجسام کے ذرات سے مل کر خلط ملط ہوجائیں گے تو پھر یہ کیسے متعین ہوگا کہ یہ ذرہ فلاں جسم کا ہے اور یہ ذرہ فلاں جسم کا ہے پھر یہ بکھرے ہوئے اور منتشر ذرات دوبارہ کس طرح جمع ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ عالم الغیب ہے اور اس سے اس جہان کا کوئی ذرہ مخفی نہیں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اس لئے مختلط اور منتشر ذرات کو ایک دور سے ممیز اور ممتاز کر کے ایک قالب میں جمع کردینا اس پر بالکل مشکل اور دشوار نہیں ہے۔

(٣) اور دوسری آیت سبا : ٤ میں فرمایا (قیامت اس لئے ضرور آئے گی) تاکہ اللہ انہیں جزا دے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اور تیسری آیت سبا : ٥ میں فرمایا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں پر غالب آنے کی کوشش کی ان کے لئے درد ناک عذاب کی سزا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کا آنا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جزاء اور سزا کا نظام قائم فرمائے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک شخص دوسرے پر مسلسل ظلم کرتا رہتا ہے اور اس کو اس کے ظلم کرنے پر کوئی سزا نہیں ملتی اور دور سے کو ظلم سہنے پر کوئی جزا نہیں ملتی، پس اگر ظالم سزا کے بغیر اور مظلوم جزا کے بغیر رہ جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے، اس لئے ضروری ہوا کہ اس دار دنیا کے بعد کوئی دار آخرت ہو جہاں ظالم کو سزا دی جائے اور مظلوم کو جزا دی جائے۔

رزق کریم کا معنی 

اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جزاء میں دو چیزوں کا ذکر فرمایا ہے مغفرت اور رزق کریم یعنی معزز روزی، مغفرت کا اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ مومنین صالحین سے بھی کچھ خطائیں اور تقصیرات ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بخشش اور مغفرت کی نوید سنائی، اور انہوں نے جو نیک کام کئے ہیں ان کی جزاء کے طور پر انہیں رزق کریم کی بشارت دی اور رزق کریم اس لئے فرمایا کہ دنیا میں ان کو جو رزق دیا تھا اس میں ان کی محنت اور مشقت کی کلفت تھی اور آخرت کا رزق کریم ہے وہ معزز روزی ہے اس میں کوئی کلفت اور تلخی نہیں ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آخرت کے رزق دو قسم کے ہیں ایک دوزخیوں کا رزق ہے جس میں شجرۃ الزقوم (تھوہر کا درخت) ہے، اور الحمیم (گرم پانی) ہے اور دوسرا جنتیوں کا رزق ہے جس میں پھل اور میوے ہیں اور شراب طہور ہے اور یہی رزق کریم ہے۔

اس کے بعد فرمایا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں پر غالب آنے کی کوشش کی ان کے لئے درد ناک عذاب کی سزا ہے۔ (سبا : ٥) 

یعنی جو کفار ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کو ابطل کہتے ہیں اور ان کا یہ گمان ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ ان کو زندہ کر کے دوبارہ اٹھائے، اللہ تعالیٰ ان کے متعلق عذاب کی وعید فرماتا ہے کہ ان کے لئے درد ناک عذاب کی سزا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 3