أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنۡدَهٗۤ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَهٗ ؕ حَتّٰٓى اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِهِمۡ قَالُوۡا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمۡ ؕ قَالُوا الۡحَـقَّ ۚ وَهُوَ الۡعَلِىُّ الۡكَبِيۡرُ‏ ۞

ترجمہ:

اور اس کے پاس صرف اسی کی شفاعت نفع آور ہوگی جس کو وہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، حتیٰ کہ جب ان شفاعت کرنے والوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجائے گی، تو (طالبین شفاعت ان سے) پوچھیں گے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا تھا وہ کہیں گے حق فرمایا تھا اور وہ نہایت بلند، بہت بڑا ہے

سبا : ۲۳ میں فرشتوں کے دلوں پر جو ہیبت طاری ہونے کا ذکر ہے …اس کا تعلق آیا دنیا سے ہے یا آخرت سے ؟

اس کے بعد فرمایا : اس کے پاس صرف اسی کی شفاعت نفع آور ہوگی جس کو وہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا حتیٰ کہ جب ان شفاعت کرنے والوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجائے گی تو وہ (طالبین شفاعت ان سے) پوچھیں گے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا تھا وہ کہیں گے کہ حق فرمایا تھا اور وہ نہایت بلند، بہت بڑا ہے۔ 

امام ابن جریر متوفی ٠١٣ ھ، امام ابواسحاق الثعلبی المتوفی ٧٢٤ ھ، امام ابوالفرج ابن الجوزی المتوفی ٧٩٥ ھ، علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٤٧٧ ھ اور دوسرے مفسرین نے اس آیت کو دنیا کے احوال پر محمول کیا ہے کہ دنیا میں آسمانوں پر جو فرشتے موجود ہیں ان میں سے جب اوپر کے آسمان والے فرشتوں پر وحی نازل ہوتی ہے تو ان سے نیجے کے آسمان پر جو فرشتے ہیں وہ اوپر والوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے رب نے کیا فرمایا تھا وہ کہتے ہیں کہ حق فرمایا تھا اور وہ نہایت بلند، بہت بڑا ہے، اور انہوں نے حسب ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی فرمایا جب اللہ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر مارتے ہیں اور وہ اس کے قول کی آواز اس طرح سنتے ہیں جیسے کسی صاف پتھر پر رنجیر کو مارا جائے، پھر اللہ تعالیٰ اپنا ارشاد فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کے کلام کی ہیبت اور اس کا خوف دور ہوجاتا ہے تو نیچے والے فرشتے اوپر والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ ان سے کہتے ہیں کہ اس نے حق فرمایا ہے وہ نہایت بلند اور بہت بڑا ہے، پھر اس کو وہ سنتے ہیں جو سنی ہوئی باتوں کو چراتے ہیں اور سنی ہوئی باتوں کو چرانے والے ایک دوسرے کے اوپر تلے ہیں ایک کے اوپر ایک راوی سفیان نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیان کھول کر ایک پر ایک رکھ کر دکھایا، پھر ان باتوں کو چرانے والے اپنے نیچے والوں کو وہ باتیں بتاتے ہیں پھر وہ ان کے نیچے والوں کو بتاتے ہیں، پھر وہ کسی ساحر یا کاہن کو وہ باتیں بتادیتے ہیں اور بعض اوقات انہیں بتانے سے پہلے آگ کا شعلہ ان کو پکڑ لیتا ہے، اور بعض اوقات آگ کے شعلے کے پکڑنے سے پہلے وہ ان کو باتیں پہنچا دیتے ہیں، پھر وہ ساحر یا کاہن ان سنی ہوئی باتوں کے ساتھ سو جھوٹ ملادیتے ہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ کیا فلاں دن اس نے اس اس طرح نہیں کہا تھا اور اس نے آسمان سے جو بات چرا کر سنی تھی اس کی وجہ سے اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٠٨٤۔ ١٠٧٤، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٨٩٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٩١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٣، دلائل النبوۃ ج ٢، ص ٥٣٢)

ہرچند کہ اکابر مفسرین نے اس آیت کو اس حدیث پر محمول کیا ہے، لیکن اس حدیث میں اس طرح نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ اس آیت کی یہ تفسیر ہے، اس حدیث میں یہ کہیں نہیں ہے کہ شفاعت کرنے سے انہیں کو فائدہ ہوگا جن کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اس آیت کا ظاہر محمل یہ ہے کہ قیامت کے دن شفاعت کے طالبین فرشتوں اور انبیاء (علیہم السلام) کے پاس جائیں گے اور ان سے شفاعت طلب کریں گے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں ان کا مدعا عرض کریں گے اور جب اللہ تعالیٰ ان سے ان طالبین شفاعت کے متعلق کلام فرمائے گا تو اس کے کلام کا رعب اور جلال ان کے دلوں پر چھا جائے گا اور وہ گھبرا جائیں گے، اور جب ان کے دلوں سے دہشت دور ہوگی تو طالبین شفاعت ان سے پوچھیں گے آپ کے رب نے کیا فرمایا تھا وہ کہیں گے اس نے حق فرمایا ہے اور وہ نہایت بلند اور بہت بڑا ہے۔ 

اور رہی مذکور الصدر حدیث تو اس کا محمل یہ آیت نہیں ہے بلکہ اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ لوگ آپ سے شہاب ثاقب کے متعلق پوچھتے تھے کہ اس کا کیا سبب ہے تو آپ نے اس کا سبب بیان فرمایا اس کی تفصیل اس حدیث میں ہے : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ پھینکا گیا جو روشن ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم زمانہ جاہلیت میں اس طرح کی چیزیں دیکھتے تھے تو تم ان کو کیا کہتے تھے، صحابہ نے کہا ہم کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ستارہ نہ کسی کی موت کی بناء پر پھینکا جاتا ہے نہ کسی کی حیات کی بناء پر، لیکن ہمارا رب عزوجل جب کسی چیز کا فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش اس کی تسبیح کرتے ہیں، پھر عرش کے قریب جو آسمان ہے اس کے فرشتے اس کی تسبیح کرتے ہیں، پھر وہ تسبیح کرتے ہیں جو اس آسمان کے قریب ہیں حتیٰ کہ وہ تسبیح اس آسمان کے فرشتوں تک پہنچتی ہے، پھر چھٹے آسمان والے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ پھر ساتویں آسمان والے چھٹے آسمان والوں کو خبر دیتے ہیں، پھر ہر آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں حتیٰ کہ آسمان دنیا تک یہ خبر پہنچ جاتی ہے اور شیاطین ان سنی ہوئی باتوں کو جھپٹ کرلے جاتے ہیں اور اپنے دوستوں کے دلوں میں ان باتوں کو ڈال دیتے ہیں، پھر وہ ان سنی ہوئی باتوں کے مطابق جو بات کہتے ہیں وہ سچی نکلتی ہے، لیکن وہ ان سنی ہوئی باتوں میں تحریف اور زیادتی کرتے ہیں۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٢٢٣، مسند احمد ج ١ ص ٨١٢، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٨٣٢)

کفار کے لئے شفاعت نہ ہونے کی دلیل 

اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ کفار کے معبود اللہ تعالیٰ کے حضور کفار کی شفاعت نہیں کرسکیں گے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اس دلیل سے بیان فرمایا ہے کہ کسی شخص کو بھی شفاعت سے جب نفع حاصل ہوگا جب اللہ تعالیٰ اس کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ کرام شفاعت کریں گے اور یہ ظاہر ہے کہ ان کو کفار کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : 

(النبائ : ٨٣) جس دن جبریل اور سب فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور صرف وہی شخص کلام کرسکے گا جس کو رحمن نے اجازت دی ہوگی اور اس نے صحیح بات کہی ہوگی۔ 

اور کفار کے لئے شفاعت کرنا صحت اور صواب سے بہت دور ہے، اور جب انبیاء اور ملائکہ کو کفار کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو بتوں کو ان کے لئے شفاعت کی اجازت دینا تو بہت دور کی بات ہے، پس دلیل سے واضح ہوگیا کہ کفار کے لئے کسی کا بھی شفاعت کرنا ممکن نہیں ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 23