أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ يُّرِيۡدُ اَنۡ يَّصُدَّكُمۡ عَمَّا كَانَ يَعۡبُدُ اٰبَآؤُكُمۡ‌ ۚ وَقَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡكٌ مُّفۡتَـرً ىؕ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمۡ ۙ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو (کفار) کہتے ہیں یہ شخص تو تمہیں صرف اس چیز سے روکنا چاہتا ہے جس کی تمہارے باپ دادا عبادت کرتے تھے، اور انہوں نے کہا یہ (قرآن) صرف من گھڑت بہتان ہے، اور کفار کے پاس جب حق آیا تو انہوں نے اس کے متعلق کہا یہ محض کھلا ہوا جادو ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو (کفار) کہتے ہیں یہ شخص تو ہمیں صرف اس چیز سے روکنا چاہتا ہے جسکی تمہارے باپ داد عبادت کرتے تھے، اور انہوں نے کہا یہ قرآن صرف من گھڑت بہتان ہے، اور کفار کے پاس جب حق آیا تو انہوں نے اس کے متعلق کہا یہ محض کھلا ہوا جادو ہے۔ اور ہم نے ان (کفار قریش) کو (آسمانی) کتابیں نہیں دی تھیں جن کو یہ پڑھتے پڑھاتے ہوں اور نہ آپ سے پہلے ہم نے ان کی طرف کوئی عذاب سے ڈرانے والا بھیجا تھا۔ اور ان سے پہلے لوگوں نے (بھی رسولوں کو) جھٹلایا تھا اور جو (نعمتیں) ہم نے ان کو دی تھیں یہ (کفار مکہ) اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے، سو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر میرا کیسا عذاب آیا تھا !۔ (سبا : ٤٥۔ ٤٣ )

انکار وحی کی وجہ سے سابقہ امتوں پر عذاب آنا 

ان آیات میں اللہ تعالیٰ کفار کے اس کفر اور شرک کو بیان فرمارہا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوئے، کیونکہ جب ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کی واضح آیات تلاوت فرماتے تھے تو وہ ان آیات کو ماننے اور قبول کرنے کے بجائے ان کا انکار کرتے تھے اور استھزاء کرتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ دیکھو یہ شخص تمہیں تمہارے پرانے اور سچے دین سے روک رہا ہے، اور تم کو اپنے باطل نظریات کے ماننے کی دعوت دے رہا ہے، یہ قرآن تو اس کا خود کا بنایا ہوا کلام ہے، یہ اپنی طرف سے کلام بنا کر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتا ہے، اس کا کلام محض جادو ہے اور اس کا جادو ہونا کوئی مخفی بات نہیں ہے بالکل ظاہر اور بدیہی ہے۔

عرب کے لوگوں پر پہلے آسمانی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ آپ سے پہلے ان میں کوئی رسول آیا تھا اور یہ پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر ہم میں کوئی کتاب نازل ہوتی یا ہم میں کوئی اللہ کا رسول آتا تو ہم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور اطاعت شعار ہوتے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری کی تو یہ اس کتاب اور اس رسول کا انکار کرنے لگے اور ان کی تکذیب کرنے لگے 

فرمایا : ان سے پہلی امتوں کا انجام ان کے سامنے ہے ان پر جو عذاب نازل ہوا تھا، پچھلی امتیں قوت اور طاقت اور مال و متاع اور دنیاوی اسباب ان سے زیادہ رکھتے تھے یہ تو ابھی ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے، انہوں نے بھی میرے رسولوں کی تکذب کی لیکن جب ان لوگوں پر میرا عذاب نازل ہوا تو ان سے میرے عذاب کو ان کا مال و متاع دور کرسکا نہ ان کی اولاد اور ان کی رشتہ داریاں کسی کام آسکیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(الاحقاف : ٢٦) اور ہم نے ان (قوم عاد) کو جن چیزوں پر قدرت دی تمہیں ان چیزوں پر قدرت نہیں دی ہے اور ہم نے ان کے کان، آنکھیں اور دل بنائے تھے لیکن ان کے کانوں، آنکھوں اور دلوں نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جب وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے تھے اور جس عذاب کو وہ انکار کرتے تھے اسی عذاب نے ان کا احاطہ کرلیا 

(الروم : ٩) کیا انہوں نے زمین میں سفر کرکے یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا (برا) انجام ہوا (حالانکہ) وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے زمین میں کاشت کاری کی تھی اور اس کو ان سے بہت زیادہ آباد کیا تھا اور ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے، تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 34 سبا آیت نمبر 43