أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ ۞

ترجمہ:

اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے، سو تمہیں دنیا کی زندی ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ (شیطان) تم کو اللہ کے متعلق دھوکے میں رکھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے، سو تمہیں دنیا کی زندگی ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ (شیطان) تم کو اللہ کے متعلق دھوکے میں رکھے بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے، سو تم (بھی) اس کو دشمن بنائے رکھو، وہ اپنے گروہ کو اس لئے بلاتا ہے کہ وہ دوزخ والے ہوجائیں جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے (فاطر :5-7)

شیطان کے دھوکے کا بیان 

آخرت اور عذاب اور ثواب کے دلائل واضح ہوجانے کے بعد جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اس آیت میں ان کو نصیحت کی گئی ہے۔ 

دنیا کی زندگی کے دھوکے میں ڈالنے کا معنی یہ ہے کہ دنیا کی نعمتیں، اس کی لذتیں، اس کی زیب وزینت اور اس کی رنگینیاں، انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت سے غافل کردیں، حتیٰ کہ حشر کے دن وہ کف افسوس ملتا رہ جائے اور نہ شیطان تمہیں اللہ عزوجل کے متعلق دھوکے میں رکھے اور وہ دھوکہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو بھولا رہے، مسلسل گناہ کرتا رہے اور امید یہ رکھے کہ اللہ اس کی مغفرت کر دے گا اس کا یہ بھی معنی ہے کہ شیطان انسان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ تم اپنے گناہوں پر پریشان یا پشیمان نہ ہو، اللہ غفور رحیم ہے وہ مومنوں پر بہت کرم اور فضل فرماتا ہے وہ تم کو معاف کر دے گا ! اور اس طرح وہ انسان کو توبہ کرنے سے باز رکھے۔

ہمارے زمانے میں لوگ فرض نمازیں نہیں پڑھتے، رشوت خوری، چور بازاری، ملاوٹ اور فراڈ بازی سے پرہیز نہیں کرتے، پڑوسیوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اکثر لوگ رمضان کے روزے نہیں رکھتے اور میلاد شریف اور گیارہویں شریف کو قضا نہیں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت غوث اعظم کی شفاعت سے ہماری مغفرت ہوجائے گی، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی بھول ہے اگر کوئی شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پر مبنی از خود کوئی عمل کرے اور آپ کے حکم پر عمل نہ کرے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ناراض ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اس حدیث سے کیجیے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو (غزوہ موتہ میں) ایک لشکر میں روانہ کیا اتفاق سے وہ دن جمعہ کا تھا، حضرت عبداللہ بن رواحہ کے اصحاب علی الصباح روانہ ہوگئے، حضرت ابن رواحہ نے سوچا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لوں پھر جا کر اپنے اصحاب سے مل جائوں گا، جب انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ لی تو آپ نے ان کو دیکھ لیا، آپ نے پوچھا تم کو علی الصباح اپنے اصحاب کے ساتھ جانے سے کس چیز نے روک لیا ؟ انہوں نے کہا میں نے یہ ارادہ کیا میں آپ کے ساتھ نماز جمعہ پڑھ لوں، پھر ان سے مل جائوں گا، آپ نے فرمایا اگر تم تمام روئے زمین کو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو ان کے علی الصباح روانہ ہونے کی فضیلت کو نہیں پا سکو گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :527، مسند احمد ج ۃ ص 224-256 سنن کبریٰ للبیھقی ج ٣ ص 187، شرح السنہ رقم الحدیث :157)

حافظ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المتوفی 543 ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کا معنی بھی صحیح ہے کیونکہ جہاد کرنا جمعہ کی نماز اور دیگر باجماعت نماز سے افضل ہے اور جہاد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا با جماعت نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ (عارضتہ الاجوذی ج ٢ ص 567-568 دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

ہمارے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کرنا مطلقاً تمام عبادات سے افضل ہے، جمعہ کی نماز پڑھنا فرض ہے لیکن جب آپ نے جمعہ کے دن علی الصباح جہاد کے لئے روانہ ہونے کا حکم دیا تو اب جمعہ کی نماز پڑھنا فرض نہیں تھا علی الصباح روانہ ہونا فرض تھا۔ حضرت ابن رواحہ نے آپ کے حکم پر عمل کرنے کو ترک نہیں کیا تھا صرف آپ کی محبت کی وجہ سے موخر کیا تھا، اور اس پر آپ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا تو اگر ہم آپ کے احکام پر عمل کو رتک کردیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں کو کریں اور آپ کی محبت میں میلاد شریف منانے اور نعت خوانی کی محفلوں کے سجانے کو کافی سمجھیں تو کیا ہمارے اس وتیرہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوں گے ! یہ صرف شیطان کا دھوکا ہے جو ہمارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم بس محفل میلاد اور بزرگوں کی نیاز دیتے رہو، فرائض کی مشقت برداشت کرنے کی اور محرمات سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ! یاد رکھیے میلاد شریف کی محفلیں، نعت خوانی کی مجلسیں اور بزرگوں کی نیاز ضرور باعث ثواب اور مستحب ہیں لیکن فرائض اور واجبات پر عمل کرنا اور محرمات اور مکروہات سے اجتناب کرنا مقدم ہے۔ لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کے نام پر فرائض اور واجبات کو رتک کر کے اور محرمات اور مکروہات کا ارتکاب کر کے شیطان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔

مفتی احمد یا خاں نعیمی متوفی 1391 ھ فرماتے ہیں : واحسرتاہ !

اہل سنت بہر قوالی و عرس دیو بندی بہر تصنیفات و درس 

خرچ سنی برقبور و خانقاہ خرچ نجدی برعلوم و درسگاہ 

(دیوان سالک ص 74، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور۔ ٢)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 5