🌸 استاد ، مرشِد ، اور ۔۔۔۔۔ روغن 🥀

کاشت کار نے بادام کا چھوٹا سا پودا لگایا ، جو چند سالوں میں درخت بن گیا ۔
اُس پر پھول کِھلے ، پھولوں سے پھل نکلا ، پھل پک کر پھٹا تو ۔۔۔۔۔۔۔ بادام برآمد ہوئے ؛ ان باداموں کو توڑا تو گریاں نکلیں ۔

گریوں کو ” حکیم صاحب ” کے پاس لے جایا گیا ، انھوں نے کھرل میں ڈال کر رگڑا لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ یک جان ہوگئیں تو چمچ کے ساتھ اُن پر تھوڑا تھوڑا گرم پانی ڈالا ، اور پوری قوت کے ساتھ آہستہ آہستہ رگڑا تو ان سے روغنِ بادام برآمد ہوا ۔

جس کے استعمال نے:
لوگوں کو جسمانی طور پر بہت نفع دیا ۔
کسی نے اس سے سردی دور کی ، کسی نے دماغی طاقت لی توکسی نے پیٹ کا علاج کیا ۔

🌲🌲🌲🌲

اگر آپ نے بادام روغن کی کہانی توجہ سے پڑھ لی ہے ، تو یہ بھی پڑھ لیجیے :

انسان چھوٹا سا پودا ہوتا ہے ، جسے ” استاد ” زمینِ علم پر بوتا ہے ۔
چند سالوں بعد اِس کا قد کاٹھ نکل آتا ہے ، تو اس پر پھول لگنے شروع ہوجاتے ہیں ، جن سے پھل برآمد ہوتا ہے ۔
جب پھل پک جاتا ہے تو اس سے مغزِعلم نکلتا ہے ۔
اب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس مغز سے روغن نکالنے کے لیے ” شیخ و مرشد ” کے پاس لے جایا جاتا ہے ۔

” مرشدِ کامل ” ، تصوف کی کھرل میں ڈال کر ، ارادت کا رگڑا لگاتا ہے ؛ جب ظاہر و باطن ایک ہوجاتا ہے تو خلوص کے پانی کے چھینٹے مارتا ہے ، تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” روغنِ عمل ” برآمد ہوتا ہے ۔

پھر مرید شیخ کا دیا ہوا یہ روغن لے کر جس علاقے میں جاتا ہے ، لاکھوں ہزاروں لوگ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ۔
کوئی: خلوص و للہیت لیتا ہے ، تو کوئی تقویٰ و طہارت ؛ کوئی خوف و خشیت لیتا ہے ، تو کوئی احساس و مروت ۔

ہمارے استاد پر اللہ کی رحمت ہو جس نے علم کا پودا لگایا ، اور مرشد پر بھی رحمت ہو جس نے عمل کا روغن برآمد کیا ۔
سیکڑوں کتابیں ایک طرف ۔۔۔۔۔۔۔ اور استاد کا بتایا ہوا ” ایک لفظ ” ایک طرف ۔
کئی علوم و معارف ایک طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شیخ کا دیا ہوا ” سبق ” ایک طرف ۔

جو عالم نہیں ، وہ علم حاصل کرنے کے لیے استاد پکڑے ، اور جو عالم ہے ، وہ علم کو نافع بنانے کے لیے شیخ پکڑے ؛ تاکہ ایسا روغن برآمد ہو ، جس سے ایک زمانہ نفع حاصل کرے ۔

✍️لقمان شاہد
17-12-2020 ء