أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ‌ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُهَاؕ وَمِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيۡضٌ وَّحُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُهَا وَغَرَابِيۡبُ سُوۡدٌ ۞

ترجمہ:

کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کئے اور پہاڑوں کے حصے میں سید اور سرخ، ان کے رنگ مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا، پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کئے اور پہاڑوں کے حصے ہیں، سفید اور سرخ ان کے رنگ مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں، بیشک اللہ غالب ہے بہت بخشنے والا (فاطر :27-28)

مشکل الفاظ کے معانی 

اس آیت میں جدد کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں راستے گھاٹیاں یہ لفظ جدہ کی جمع ہے اس کا معنی ہے کھلا ہوا راستہ۔

ابن بحر نے کہا ہے جدد کا معنی ہے ٹکڑے، جب کوئی شخص کسی چیز کو کاٹ کر ٹکڑے کر دے تو کہتا ہے جددتہ، الجوہری نے کہا زبیرے میں جو سفید اور کالی دھاریاں ہوتی ہیں اس کو جدہ کہتے ہیں، دھاری دار چادر کو کساء مجدد کہتے ہیں، اس آیت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں مختلف رنگوں سے کے متعدد راستے پیدا کئے۔

نیز اس آیت میں غرابیت کا لفظ ہے، یہ غربیت کی جمع ہے، اس کا معنی ہے گہرے سیاہ، اس سے مراد کالے پہاڑ ہیں، غربیب اس وڑھے آدمی کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ اپنے بالوں کو سیاہ خضاب سے رنگتا ہو۔

سود کے معنی بھی سیاہ ہیں اور یہ غرابیب کی تاکیدی صفت ہے۔ جو چیز بہت سیاہ ہو عرب کہتے ہیں اس کا رنگ غراب (کوے) کی طرح ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ شیخ غربیب سے بغض فرماتا ہے، یعنی اس بوڑھے شخص سے جو بالوں کو سیاہ خضاب سے رنگتا ہو۔ (الکامل لابن عدی ج ٣ ص 1016، دارالفکر، الفردودس بما ثور الخطاب رقم الحدیث :560 جمع الجوامع رقم الحدیث :5548 الجامع الصغیر رقم الحدیث :1851 کنز العمال رقم الحدیث 7335 اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلائل 

اس سے پہلی آیتوں میں کفار سے خطاب فرمایا تھا اور اس آیت میں دو احتمال ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں بھی کفار سے خطاب فرمایا ہو اور ان پر اپنی توحید کی دلیل پیش کی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا ہو اور آپ کے سامنے اپنی توحید کی دلیل پیش کی تاکہ آپ یہ دلیل لوگوں کو سمجھائیں۔

اس آیت سے توحید پر اس طرح استدلال ہے کہ پانی کی طبیعت واحدہ ہے اور واحد چیز کا اثر بھی واحد ہوتا ہے پس اگر پھولوں کی پیدائش میں یہ پانی مئوثر ہوتا تو تمام پھول ایک ہی رنگت کے ہوتے، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ پھول مختلف رنگ کے ہیں تو معلوم ہوا کہ پانی ان پھولوں کی پیدائش میں مئوثر نہیں ہے، پھر اگر کسی کو یہ تردد ہو کہ زمین اور پہاڑی علاقے پھولوں کی پیدائش میں مئوثر ہیں تو اس کا ازالہ فرمایا کہ پہاڑ سفید، سرخ اور گہرے سیاہ ہیں تو پھر زرد پھول اور نیلے پھول کس سے پیدا ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں ان مختلف رنگوں کو کون پیدا کرنے والا ہے، پھولوں کی پیدائش میں تم جس پانی اور زمین کو مئوثر سمجھ رہے ہو اس پانی اور زمین کا خالق کون ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 27