أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ ۞

ترجمہ:

آپ کا ڈرانا صرف اس کے لئے (مفید) ہے جو نصیحت پر عمل کرے اور بن دیکھے رحمٰن سے ڈرے تو آپ اس کو مغفرت کی اور باوقار ثواب کی نوید سنا دیجیے

تفسیر:

اس کے بعد فرمایا : آپ کا ڈرانا صرف اس کے لئے (مفید) ہے جو نصیحت پر عمل کرے اور بن دیکھے رحمٰن سے ڈرے تو آپ اس کو مغفرت اور باوقار ثواب کی نوید سنا دیجیے (یٰسین : ١١) اس سے پہلیی آیت میں فرمایا تھا اور آپ کا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے اور اس آیت میں فرمایا ہے آپ صرف ان کو ڈرائیں جو نصیحت پر عمل کرے اور بن دیکھے رحمٰن سے ڈرے۔

(١) آپ کا ڈرانا صرف ان لوگوں کے لئے مفید ہے جو قرآن مجید کی آیات پر عمل کریں اور آپ کی اتباع کریں۔

(ہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ برطریقہ عموم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہیں، لیکن کفار اور مشرکین آپ کے وعظ اور نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے، آپ اسی طرح عموم کے ساتھ ہدایت دیتے رہیں تاہم آپ کی نصیحت سے صرف ان ہی لوگوں کو فائدہ ہوگا جو آپ کی نصیحت پر عمل کریں گے۔

(٣) جب آپ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں تو بعض لوگ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور ایمان لانے سے تکبر کرتے ہیں اور بعض آپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں تو اول الذکر لوگوں سے اعراض کیجیے اور ثانی الذکر لوگوں کو نصیحت کرتے رہیے۔

(٤) آپ عمومی طور پر اصول اور عقائد کا ذکر کریں اور جو آپ کی نصیحت پر عمل کرنے والے ہیں ان کے سامنے نماز اور روزے پر مشتمل فرعی احکام بیان کریں تاکہ وہ ان پر عمل کرکے اخروی ثواب حاصل کریں۔ اس آیت میں فرمایا ہے آپ کا ڈرانا صرف اس کے لئے ہے جو ذکر کی اتباع کرے۔ ذکر سے مراد قرآن مجید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں، یا اس سے مراد وہ دلائل ہیں جو قرآن مجید کے برحق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا بےنیاز اور نکتہ نواز ہونا 

اور رحمٰن سے ڈرنے سے مراد یہ ہے کہ جو شخص رحمٰن کی گرفت یا اس کے عذاب سے ڈر کر برے عقائد اور برے کاموں کو ترک کر دے اور اچھے عقائد اور اچھے کاموں کو اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے دو اسم مختص ہیں ایک لفظ اللہ ہے اور دوسرا لفظ رحمٰن ہے، جیسا کہ فرمایا :

آپ کہیے کہ تم اللہ کو یاد کرو یا رحمن کو یاد کرو۔ (بنو اسرائیل 110)

اور علماء نے ان دونوں اسموں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ لفظ اللہ جلال اور ہیبت پر دلالت کرتا ہے اور لفظ رحمن اس کی رحمت کی زیادت پر دلالت کرتا ہے، اس کے باوجود کسی جگہ لفظ اللہ رحمت کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا :

تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔

اور کبھی رحمن کا لفظ غضب کے لئے آتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے وخشی الرحمن بالغیب اور بن دیکھے رحمن سے ڈرے یعنی اس کے غضب اور اس کے عذاب سے ڈرے یعنی اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ جلال اور ہیبت والا ہے تم اس سے اپنی امیدیں منقطع نہ کرو اور اس کے باوجود کہ وہ رحمن اور رحیم ہے تم اس کی گرفت اور اس کے عذاب سے بےخوف نہ ہو، یعنی بندہ کو چاہیے کہ وہ اس کی رحمت سے دھوکا نہ کھائے کیونکہ وہ درد ناک عذاب میں بھی تو مبتلا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(الحجر : 50-49)

آپ میرے بندوں کو بتایئے کہ میں بےحد معاف کرنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہوں اور بیشک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔

وہ نکتہ نواز اور بےنیاز ہے وہ جلال میں ہو تو ایک بلی کو باندھ کر بھوکا رکھنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیتا ہے اور رحم فرمائے تو ایک کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے ساری عمر کے کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کو بن دیکھے ڈرنے کا معنی 

اس آیت میں جو فرمایا ہے وہ بن دیکھے رحمان سے ڈرے، اس کا ایک معنی یہ ہے کہ موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کو دیکھنے سے پہلے یا حشر کے احوال کو دیکھنے سے پہلے یا دوزخ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس پر ایمان لے آئے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ بسا اوقات انسان لوگوں کے سامنے کوئی ناجائز اور حرام کام نہیں کرتا ان سے حیا کرتا ہے اور اپنی مذمت سے ڈرتا ہے اور جب وہ تنہا ہوتا ہے اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، اس وقت وہ کوئی ناجائز اور حرام کام کرلیتا ہے اور اللہ سے نہیں ڈرتا، سو بندہ کو چاہیے کہ جس طرح وہ لوگوں کے سامنے برے اور غلط کام نہیں کرتا، اسی طرح تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے بھی حیا کرتے ہوئے اور صرف اس سے ڈرتے ہوئے برے کام نہ کرے اور اس کا تیسرا معنی یہ ہے کہ غیب سے مراد قلب ہے، یعنی انسان دل سے اللہ سے ڈرے یہ نہ ہو کہ انسان ظاہری طور پر اپنے اوپر خشیت کو طاری کرے اور دل میں اللہ کا ڈر نہ ہو۔

اور فرمایا : تو آپ اس کو مغفرت اور باوقار ثواب کی نوید سنا دیجئے۔

یعنی جس کو آپ نے عذاب سے ڈرایا اور وہ ڈر کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے لگا اور اس نے برے کاموں کو ترک کردیا تو آپ اس کو ثواب کی بشارت دیجئے اور اس ثواب سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا خیال آیا ہے اور ان سب میں بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کا راضی ہونا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 11