تحریر: پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی

وہ تو خلیفہ تھا، وہ تو جانشین تھا

وہ کون تھا ؟ عرب حیران، عجم حیران ، شرق حیران ، غرب حیران، انسان حیران ، جن حیران ، مسلمان حیران، کافر حیران.. وہ دراصل خلیفۃ اللہ علی الارض تھا ، وہ ہر خوف وغم سے بے نیاز تھا ، وہ ہر مدح و ذم سے بے نیاز تھا، وہ دھن دولت سے بے نیاز تھا ۔

وہ اقبال کا جانشین تھا… اسے کلام اقبال نوک زبان تھا۔ اس نے دنیا کو اقبال سے متعارف کرایا ، اس نے اقبال کو از سر نو زندہ کر دیا اسی لیے اس نے اقبال کے مہینے میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔

وہ رضا کا جانشین تھا… وہ عشق رسول کا پیکر تھا، وہ حدائق بخشش کا پر چارک تھا ، وہ فتاوی رضویہ کا ترجمان تھا ، وہ ناموس صحابہ واہل بیت کا محافظ تھا، وہ عقائد اہل سنت کا بے باک ترجمان تھا ، وہ اسلام کے زندہ مسائل کا علم بردار تھا.

وہ فضل حق خیر آبادی کا جانشین تھا… وہ باطل کے ایوانوں میں حق کی للکار تھا ، وہ طاغوت کے میدانوں میں اسلام کی یلغار تھا، وہ فرنگی تہذیب کے لیے شمشیر بے نیام تھا، وہ جہاد فی سبیل اللہ کا داعی تھا ۔

وہ غوث اعظم کا جانشین تھا… اس نے تجدید و احیاء دین کا فریضہ سر انجام دیا ، اس نے بگڑے ہوؤں کو سنوارا ، اس نے غلط روش چلنے والوں کا قبلہ درست کیا ، اس نے مردہ دلوں میں صور اسرافیل پھونکا ، اس نے دین کے ناتواں جسم میں ایک نئی روح پھونک دی.

وہ احمد بن حنبل کا جانشین تھا… اس نے معذوری کی حالت میں بھی اپنے کمزور بدن پر شدیدترین مظالم برداشت کیے، اس نے قیدو بند کی بدترین صعوبتیں برداشت کی ، اس نے دشمنانِ دین کے ہاتھوں سے ماریں کھائیں ، وہ ظلم وتشدد کے طوفانوں کے سامنے کوہ گراں بن کے ٹھہرا رہا ۔

وہ امام حسین کا جانشین تھا… وہ کربلاء عصر کا سالار تھا ، اس نے فیض آباد میں کرب و بلا کا ایک نیا جہان آباد کیا ، اس پر شیلنگ بھی کی گئی، اس پر فائرنگ بھی کی گئی ، اس پر دہشت گردی کے مقدمے بھی درج کیے گئے ، اسے ہتھکڑیا ں بھی لگائی گئیں ، اسے گالیاں بھی دی گئیں، اسے سیڑھیوں اور فرشوں پر گھسیٹا بھی گیا، اس کے گھر پر چھاپے بھی مارے گئے ، اس کی چاردیواری کے تقدس کو بھی پامال بھی کیا گیا ۔ مگر وہ سیدنا امام حسین کی طرح عزیمت و استقامت کی چٹان بن کے ٹھہرا رہا ۔

وہ حیدر کرار کا جانشین تھا… وہ علوی حکمت کا سرچشمہ تھا، وہ حیدری شجاعت کا پیکر تھا، اس نے روافض کا قلع قمع کیا، اس نے نواصب کا منہ توڑا، وہ خارجیوں سے لڑتا رہا، وہ معتزلیوں کے سر پھوڑتا رہا .

وہ عثمان غنی کا جانشین تھا… وہ لوٹتا نہیں تھا وہ لٹاتا تھا، وہ کھاتا نہیں تھا وہ کھلاتا تھا، وہ لیتا نہیں تھا وہ دیتا تھا ، وہ دامن نہیں پھیلاتا تھا، وہ جھولیاں بھرتا تھا ، وہ جمع نہیں کرتا تھا وہ خرچ کرتا تھا، وہ نذرانے نہیں بٹورتا تھا وہ ان سے منع کرتا تھا ۔

وہ فاروق اعظم کا جانشین تھا… وہ جرات، حمیت استقامت اور غیر ت کا عظیم مظہر تھا ، وہ ناموس رسالت کے دشمنوں کے لیے تیغ براں تھا ، وہ حق گوئی و بےباکی کی زندہ مثال تھا، وہ حربی کافروں کے لیے فولاد سے زیادہ سخت تھا، وہ مؤمنوں کے لیے بریشم کی طرح نرم تھا ۔

وہ صدیق اکبر کا جانشین تھا… اس نے ختم نبوت کے عقیدے کو نئی تازگی عطا کی ،اس نے وقت کے دجالوں اور کذابوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ، اس کے نام سے ختم نبوت کے ڈاکو تھر تھر کانپتے تھے، اس نے مرتدوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کا پورا پورا بندوبست کیا ۔

وہ سرور کائنات کا جانشین تھا… اس نے قرآن و سنت کے جھنڈے لہرائے ، اس نے منبر رسول کی رونق کو بحال کیا، اس نے محبوب کے مصلے کو آباد کیا ، اس نے جیش عسرت کی سی دشواریاں برداشت کیں، اس نے اسلام کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ، اس کے رعب سے کفر و ضلال کی ٹانگیں کانپتی تھیں، اسے اس کے آقا و مولا کی طرح اپنوں میں بھی پذیرائی ملی اور غیروں میں بھی ، اس کی تعریف میں دوست بھی رطب السان ہوئے اور دشمن بھی.

وہ رب کائنات کا خلیفہ تھا… اس نے بار امانت کو اپنے معذور جسم پر اٹھانے کا حق ادا کردیا، اس نے فرشتوں کے مقابلے میں انسان کو اللہ کے سامنے سرخ رو کر دیا، اس نے الملک للہ والحکم للہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا ، اس نے رب کی دھرتی پہ اس کے نظام کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں ۔

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را