جب تم کو حاجت کے لیے اللہ کی ضرورت ہو تو میرے زریعے سوال کرنا

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی

امام معروف الکرخی وہ صوفی اور اللہ کے کامل ولی تھے جنکی ہر دعا قبول ہوتی تھی اور یہ انکی کرامت ہے کہ انکی وفات کے بعد انکی قبر پر بھی انکے توسل سے جو دعا کر لی جائے وہ بھی قبول ہوتی تھی اور یہ کرامت شروع سے آج تک معروف ہے

اس کرامت پر محدثین نے متعدد تصریحات کی ہیں

ہم چند ایک نقل کرتے ہیں اور پھر اس پر محدثین کا تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں

امام خطیب اس باب میں پہلی روایت جو لاتے ہیں وہ درج ذیل ہے :

أخبرني أبو إسحاق إبراهيم بن عمر البرمكي، قال: حدثنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن بن محمد الزهري، قال: سمعت أبي يقول: قبر معروف الكرخي مجرب لقضاء الحوائج، ويقال: إنه من قرأ عنده مائة مرة قل هو الله أحد وسأل الله تعالى ما يريد قضى الله له حاجته.

حضرت امام معروف کرخی کی قبر حاجات کو پورا کرنے کے لیے آزمودہ ہے

کہا جاتا ہے کہ جو بھی انکی قبر کے پاس قل ھو اللہ احد انکی قبر کے پاس جا کر ۱۰۰ بار پڑھے پھر اللہ سے جو بھی دعا کرے اللہ اسکی دعا قبول فرماتا ہے

سند کے رجال کا تعارف!

۱۔پہلے راوی : امام ابراہیم بن عمر البرمکی

إبراهيم بن عمر بن أحمد بن إبراهيم، أبو إسحاق البرمكي البغدادي، الفقيه الحنبلي. [المتوفى: 445 هـ]

قال الخطيب: كتبنا عنه، وكان صدوقا دينا فقيها على مذهب أحمد بن حنبل

(تاریخ الاسلام برقم:۱۳۴)

۲۔ سند کے دوسرے راوی : امام ابو الفضل

الشيخ، العالم، الثقة، العابد، مسند العراق، أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله بن سعد ابن الحافظ إبراهيم بن سعد بن إبراهيم ابن صاحب النبي – صلى الله عليه وسلم – عبد الرحمن بن عوف القرشي الزهري العوفي البغدادي

(سیر اعلام النبلاء برقم 282)

۳۔ سند کے تیسرے راوی: امام عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله

اور یہ صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف القرشی کی نسل سے تھے

صرف پانچ واسطوں سے انکا سلسلہ نسب صحابی رسول ﷺ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے ملتا ہے

امام خطیب نے انکی توثیق کی ہے :

5373- عبد الرحمن بن محمد بن عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف(صحابی رسولﷺٌ)

وكان ثقة.

(تاریخ بغداد)

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ

دوسری روایت :

حدثني أبو عبد الله محمد بن علي بن عبد الله الصوري، قال: سمعت أبا الحسين محمد بن أحمد بن جميع، يقول: سمعت أبا عبد الله ابن المحاملي، يقول: أعرف قبر معروف الكرخي منذ سبعين سنة ما قصده مهموم إلا فرج الله همه.

امام عبداللہ ابن المحاملی فرماتے ہیں معروف کرخی کی قبر کو ستّرسال سے پہچانتا ہوں جب بھی کسی مغموم شخص نے اس (کی قبر کی زیارت) کا ارادہ کیا اللّہ تعالی نے اس کے غم کو دور فرمادیا.

(تاریخ بغداد

سند کے رجال کا تعارف!

۱۔پہلا راوی : ابو عبداللہ محمد الصوری

محمد بن علي بن عبد الله بن محمد بن رُحيْم، أبو عبد اللَّه الصوريّ الحافظ، [المتوفى: 441 هـ]

قال الخطيب: وكان صدوقًا،

(تاریخ الاسلام برقم:۲۴)

۲۔دوسرا راوی: ابو حسین محمد بن احمد جمیع

محمد بن أحمد بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن بن يحيى بن جميع، أبو الحسين الصيداوي الغساني. [المتوفى: 402 هـ]

ووثقه أبو بكر الخطيب

(تاریخ الاسلام برقم:۷۸)

۳۔ تیسرا راوی : امام ابو عبداللہ الحسین بن اسماعیل الماحلی جنکا یہ قول ہے انکے بارے امام ذھبی فرماتے ہیں :

المحاملي الحسين بن إسماعيل بن محمد **

القاضي الإمام العلامة المحدث الثقة مسند الوقت أبو عبد الله الحسين بن إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن سعيد بن أبان الضبي البغدادي المحاملي مصنف السنن

قاضی امام علامہ محدث ثقہ اپنے وقت کے مسند ابو عبداللہ المحاملی جو کہ کتاب السنن کے مصنف ہیں

(سیر اعلام النبلاء برقم ۱۱۰)

اسکو نقل کرنے کے بعد امام خطیب فرماتے ہیں :

وبالجانب الشرقي مقبرة الخيزران، فيها قبر محمد بن إسحاق بن يسار صاحب السيرة، وقبر أبي حنيفة النعمان بن ثابت الفقيه إمام أصحاب الرأي.

اسکے مشرق کی جانب مقبرہ خیززران ہے جس میں محمد بن اسحاق بن یسار جو صاحب سیر ہیں اور قبر ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہے جو فقیہ ہیں اور اصحاب الرائ کے امام ہیں

(تاریخ بغداد ، ج۱، ص ۴۴۵)

معلوم ہوا کہ اپنے وقت کے جید حفاظ کا ذاتی یہ تجربہ تھا کہ امام معروف کرخی کی قبر پر آکر کوئی غم خوار خوش ہوئے بغیر نہ گیا

یہی وجہ ہے کہ امام قشیری رحمہ انکے بارے اپنے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوۃ، یستشفی بقبرہ۔ یقول البغدادیون : قبر معروف تریاق مجرب۔

آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے اور آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہو کر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہل بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔

الرسالۃ القشیریۃ : 41

تو لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ امام معروف کرخی کی قبر پر دعا مبقول ہوتی ہے اسکی وجہ تھی کہ امام معروف اپنی زندگی میں ہی یہ اعلان کرکے گئے تھے اور یہ انکی کرامت تھی جو آج بھی جاری ہے

جیسا کہ امام ابو نعیم الاصبھانی اپنی مشہور تصنیف حلیہ الاولیا ء میں نقل کرتے ہیں:

حدثنا جعفر بن محمد بن نصير , في كتابه وحدثني عنه عثمان بن محمد العثماني , قال أخبرنا أحمد بن مسروق، حدثني يعقوب ابن أخي معروف الكرخي , قال لي عمي: «يا بني إذا كانت لك إلى الله حاجة فسله بي»

امام معروف کرخی اپنے بھتیجے سے فرماتے ہیں اے بیٹے! جب تم کو حاجت کے لیے اللہ کی ضرورت ہو تو میرے زریعے سوال کرنا

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ج۸، ص۳۶۴)

اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے امام معروف کرخی کے بھتیجے کے انکا ذکر امام خطیب نے بغیر جرح و تعدیل کے کیا ہے اور اس قول کو تقویت حاصل ہے پچھلی روایات کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں

تو بریلیوں پر الزام لگانا کہ یہ مزاروں پر جاتے ہیں گھر بیٹھ کر اللہ سے کیوں نہیں مانگتے تو یہ انکا رد ہے کہ مانگتتے سب رب ہی سے ہیں لیکن کچھ انکی مقبول ہستیاں ہوتی ہیں جنکی وجہ سے اللہ حیاء کرتا ہے اور سائل کی تمنا پوری کر دیتا ہے

اسی طرح امام ذھبی ایک محدث ابن لال أبو بكر أحمد بن علي بن أحمد الهمذاني کی مداح نقل کرتے ہیں :

قال شيرويه: كان ثقة، أوحد زمانه، مفتي البلد، وله مصنفات في علوم الحديث، غير أنه كان مشهورا بالفقه.

قال: ورأيت له كتاب (السنن) ، و (معجم الصحابة) ، ما رأيت أحسن منه، والدعاء عند قبره مستجاب

امام شیرویہ کہتے ہیں کہ یہ اپنے زمانہ کے ثقہ تھے اور علاقے کے مفتی تھے اور انکی تصنیفات ہیں علام میں اور انکے علاوہ کوئی فقہ میں مشہورنہ تھا

پھر کہا کہ میں نے انکی کتاب السنن اور معجم الصحابہ دیکھی ہے اور اس سے بہتر کتب میں نے نہیں دیکھی ہے اور انکی قبر کے نزدیک دعا قبول ہوتی ہے

اسکو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

قلت: والدعاء مستجاب عند قبور الأنبياء والأولياء،

میں ( الذھبی) کہتاہوں کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبور کے نزدیک دعا مبقول ہوتی ہے

(سیر اعلام النبلاء، ج۱۷، ص ۷۷)

اللہ ہم سب کو اولیاءاللہ کی محبت اور انکا فیض حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور متقدمین اور سلف صالحین کے طریق پر چلنے کی توفیق دے آمین

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی