“کیا امام ابوحنیفہ باقی تین اماموں کے بھی امام اعظم ہیں”

. بجواب از اسد الطحاوی

”امام ابو حنیفہ اپنے بعد والے سب اماموں کے لیے امام اعظم تھے ”

ایک وابی میاں نے حسب عادت جہالت بکھیری ہے جسکو سمیٹنے کی کوشش کرینگے ہم اور اسکے باطل اور جہالت بھرے دعوے کا پوسٹ مارٹم کرینگے مخصترا اور ہمارا رد بالکل انکے منہج پر ہوگا تاکہ انکے پاس انکار کی گنجائش نہ رہے

تو موصوف لکھت ہے :

یہ بات بالکل غلط ہے اور مقلدین حنفیہ اگر اس پلیکھے میں ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ باقی تین امام یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اجمعین کے بھی امام اعظم ہیں تو وہ اپنا پلیکھا نکال لیں،

امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کو امام اعظم اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ امام جن کے اقوال کی بنیاد پر فقہ حنفی کھڑی ہے ان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام اعظم ہیں اور وہ امام ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خود، اور ان کے شاگرد قاضی ابو یوسف ،محمد بن الشیبانی، اور زفر، وغیرہ ان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام اعظم ہیں نہ کہ آئمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ امام اعظم ہیں،

بطور دلیل حوالے پیش کر رہا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آئمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام اعظم بالکل نہیں،

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابراہیم بن طہمان فرماتے ہیں،

“میں مدینہ طیبہ آیا تو میں نے وہاں سے احادیث لکھیں، پھر میں کوفہ گیا تو وہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے گھر پر ملا، انہوں نے سلام کہا، تو انہوں نے فرمایا، تم نے مدینہ میں کس کس سے احادیث لکھیں ہیں؟

میں نے ان کا نام لیا تو انہوں نے فرمایا، تم نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے بھی کچھ لکھا ہے؟

میں نے عرض کیا، جی ہاں

انہوں نے فرمایا، امام مالک سے جو کچھ تم نے لکھا ہے وہ میرے پاس لاؤ،

میں وہ ان کے پاس لے گیا تو انہوں نے کاغذ اور سیاہی طلب کی، میں انہیں وہ احادیث لکھواتا جاتا اور وہ لکھتے جاتے


امام ابو حنیفہ امام مالک کی روایات لکھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہ اہل مدینہ کے خلاف رد کرتے تھے اور امام ابو حنیفہ کو امام نافع کے بھی شاگرد تھے تو تقابل کے لیے بھی روایات لکھوائی جاتی ہیں تاکہ انکے دلائل کا رد کیا جاسکے

دیگر صورت اس میں عاجزی کی دلیل بھی ہے کیونکہ بڑے بڑے محدثین جو اپنے سے عمر میں چھوٹے شاگردوں سے بھی روایات بیان کرتے تھے

جیسا کہ امام ابو حنیفہ اپنے سے چھوٹے امام سفیان ثوری سے بھی روایت کرتے تھے اور امام سفیان امام ابو حنیفہ سے بھی احادیث بیان کرتے تھے

اس پوری تحریر سے تو کچھ ثابت نہیں ہوتا

البتہ امام مالک امام ابو حنیفہ کی فقاہت اسے استفادہ کرتےتھے جیسا کہ امام شافعی نے امام دراوردی سے نقل کیا ہے کہ امام مالک نے فتوے میں امام ابو حنیفہ سے استفادہ کیا ہے اسکا اسکین نیچے دیکھا جا سکتا ہے

اور امام ذھبی سیر اعلام میں امام ابو حنیفہ کے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں :

حتى إنه روى عن: شيبان النحوي – وهو أصغر منه – وعن: مالك بن أنس – وهو كذلك -.

یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ شیبان النحوی ، جو کہ ان سے چھوتے تھے ان سے بھی بیان کرتے تھے اور ایسے ہی امام مالک بن انس کے سے بیان کر دیتے

اسکے بعد امام ذھبی اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وعني بطلب الآثار، وارتحل في ذلك، وأما الفقه والتدقيق في الرأي وغوامضه، فإليه المنتهى، والناس عليه عيال في ذلك.

اثار و حدیث کے طلب کے لیے انہوں نے بہت سفر کیے اور باقی رہی فقہ تو اسکی دقیق پیچیدگیاں ہیں اسکا اختتام امام ابو حنیفہ پر ختم ہوتا ہے اور سارے لوگ اس (فقہ) میں امام ابو حنیفہ بال بچے ہیں

(سیر اعلام النبلاء اسکین نیچے موجود ہے)

لو یہ وابی میاں تو تین اماموں کے امام اعظم پر شور مچا رہا تھا امام ذھبی نے تو امام ابو حنیفہ کو انکے بعد کے سارے اماموں کا والد قرار دے دیا

آگے چلتے ہین ۔۔۔۔۔

موصوف لکھتا ہے ؛

.

امام ذھبی تذکرۃ الحفاظ میں اشہب بن عبدالعزیز کا بیان نقل کرتے ہیں

“میں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے اس طرح دیکھا جس طرح بچہ اپنے باپ کے سامنے ہو”

اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے امام ذھبی رحمہ اللہ آگے لکھتے ہیں

“یہ واقعہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حسن ادب اور تواضع پر دلالت کرتا ہے حالانکہ وہ عمر میں امام مالک رحمہ اللہ سے تیرہ سال بڑے تھے “

ان واقعات سے معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مقام علم کی دنیا میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بہت اونچا ہے،


الجواب (اسد الطحاوی)

امام ذھبی کا کلام برحق ہے کہ امام ابو حنیفہ کی عاجزی تھی کہ عمر میں بڑے ہو کر بھی ادب سے پیش آتے یہی انکی شان کے لائق تھا

لیکن وابی میاں نے ڈنڈی مارتے ہوئے جو لکھا ہے

” ان واقعات سے معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مقام علم کی دنیا میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بہت اونچا ہے،”

یہ باطل بات ہے کیونکہ امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں :

بیشک امام ابو حنیفہ اجتیہاد و فقہات میں امام مالک سے بڑے امام تھے

بلکہ امام ذھبی امام شافعی کا امام ابو حنیفہ کے قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وقال الشافعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة.

قلت: الإمامة في الفقه ودقائقه مسلمة إلى هذا الإمام، وهذا أمر لا شك فيه.

امام شافعی نے فرمایا تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے بال بچے ہیں

میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ فقہ میں انکی امامت و جلالت مسلمہ ہے کہ وہ امام ہیں اور اس بات میں کوئی بھی شک کی گنجائش نہیں ہے

(سیر اعلام ، اسکین نیچے موجود ہے )

نیز جس کتاب تذکرہ الحفاظ سے یہ حوالہ دے رہے ہیں اسی کتاب میں امام ذھبی نے ابو حنیفہ کو امام اعظم کہا ہے

جیسا کہ وہ کہتے ہیں : أبو حنيفة الإمام الأعظم

موصوف آگے لکھتا ہے :

ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی اور امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ کے درمیان ایک مناظرہ ہے،

امام شافعی کا محمد بن حسن الشیبانی سے ایک موقع پر مناظرہ ہوا، محمد بن حسن الشیبانی نے امام شافعی سے کہا :

تمہارے صاحب (امام مالک ؒ) بڑے عالم ہیں یا ہمارے صاحب (ابوحنیفہ)؟

امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا بات انصاف سے ہو محمد بن حسن الشیبانی نے کہا ہاں بالکل انصاف سے، امام شافعی میں اللہ کا واسطہ دے کر تجھ سے پوچھتا ہوں امام مالک قرآن کے بڑے عالم تھے یا ابوحنیفہ؟

محمد بن حسن الشیبانی نے کہا :

امام مالک قرآن کے بڑے عالم تھے

پھر امام شافعی نے کہا:

میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں امام مالک سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بڑے عالم تھے یا امام ابوحنیفہ؟

محمد بن حسن الشیبانی نے کہا :

امام مالک سنت کے بڑے عالم تھے

پھر امام شافعی نے کہا :

میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں اقوال صحابہ کرام کے امام مالک بڑے عالم تھے یا امام ابوحنیفہ؟

محمد بن حسن الشیبانی نے کہا :

امام مالک اقوال صحابہ کرام کے بڑے عالم تھے

امام شافعی نے کہا :

اب باقی بچا قیاس اور صحیح قیاس بھی تو انہی تین چیزوں پر ہوتا ہے،

اس کے بعد محمد بن حسن الشیبانی کچھ بولنے کے قابل نہ رہے اور خاموش ہو گئے،

.

ان واقعات سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے درمیان امام اعظم تھے نہ کہ آئمہ اربعہ کے درمیان امام اعظم،

الجواب (اسد الطحاوی)

یہ تو دستی ریڈی میڈ کام کر کے خود سے نیتجہ گھڑ کر امام محمد کے منہ تھپ دیا وابی میا ں نے

اصل میں یہ واقعہ بیان کرنے والوں نے اسکے متن کو کہیں کیسا بیان کیا ہے اور کہیں کیسا جسکی وجہ سے امام ذھبی نے اس وقعہ پر نکیر کی ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ امام محمد جنکی ساری زندگی فقہ حنفی مدوون کرنے میں بسر ہوئی جہوں نے امام مالک کے رد میں کتب لکھی اور اس روایت میں امام محمد کا قول موجود ہے کہ ہمارے امام ابو حنیفہ امام مالک سے بڑے ہیں تو امام شافعی سے کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں

اصل بات یہ ہے کہ اس واقعہ کی جو اصل ہے امام ابن عبدالبر نے اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے جو حقیقت کے قریب ہے وہ اتنا ہے :

قال نا إبراهيم بن نصر قال سمعت محمد بن عبد الله بن عبد الحكم يقول سمعت الشافعي يقول قال لي محمد بن الحسن صاحبنا أعلم من صاحبكم يعني أبا حنيفة ومالكا وما كان على صاحبكم أن يتكلم وما كان لصاحبنا أن يسكت قال فغضبت وقلت نشدتك الله من كان أعلم بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم مالك أو أبو حنيفة قال مالك لكن صاحبنا أقيس فقلت نعم ومالك أعلم بكتاب الله تعالى وناسخه ومنسوخه وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم من أبي حنيفة فمن كان أعلم بكتاب الله وسنة رسوله كان أولى بالكلام حدثنا خلف بن قاسم قال نا الحسن بن رشيق قال نا محمد بن الربيع بن سليمان ومحمد بن سفيان بن سعيد قالا نا يونس بن عبد الأعلى قال قال لي الشافعي ذاكرت محمد بن الحسن يوما فدار بيني وبينه

امام محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم کہتے ہیں میں نے امام شافعی سے سنا وہ کہتے ہیں :

ایک مرتبہ امام مجھ سے کہا

ہمارے استاذ(ابو حنیفہ) تمہارے استاذ(مالک) سے بڑے عالم ہیں کیونکہ تمہارے استاذ(پیچیدہ مسائل) میں بولتے نہیں ہے اور ہمارے استاذ(ان مسائل کے حل میں ) خاموش نہیں ہوتے

توامام شافعی نے کہا ”مجھے غصہ آگیا”

میں نے کہا آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت (احادیث ) کے بڑے عالم کون تھے ؟ مالک یا ابو حنیفہ؟

تو انہوں نے جواب دیا مالک (حدیث میں زیادہ اوثق امام تھے )

پھر امام محمد نے کہا لیکن ہمارے امام ابو حنیفہ زیادہ (پیچیدہ مسائل ) پر اجتیہاد کرنے والے تھے تو امام شافعی نے کہا ٹھیک ہے

لیکن امام مالک کی کتاب ، اسکے ناسخ اور منسوخ اور اسنت کے امام ابو حنیفہ سے بڑے عالم تھے جو شخص اللہ کی کتاب اسکی سنت کے بارے مٰں زیادہ علم رکھتا ہے وہ کلام کرنے کا زیادہ حقدار ہے

(الانتقاء )

اس پورے واقعہ میں امام مالک کو امام محمد نے صرف حدیث ک علم میں زیادہ بڑا علام قرار دیا باقی اس میں ایسا کچھ نہیں جو اوپر اصحاب الحدیث اپنی کتب میں نقل کرتے ہیں

اور دوسری بات یہ سارا معاملہ غصے اور مناظرے کے درمیان تھا کیونکہ امام شافعی نے تصریح کی ہے کہ مجھے غصہ آگیا اور غصہ میں کہے گئے الفاظ حجت نہیں ہوتے

وگرنہ امام شافعی کا بیان ہے کہ تمام لوگ امام ابو حنیفہ کے بال بچے ہیں اور مجھ پر فقہ میں سب سے زیادہ احسان امام محمد نے کیا ہے

تو یہاں تو امام شافعی ، بھی امام مالک کی بجائے فقہ میں امام محمد کو مقدم کیا ہے تو پیچھے کیا رہہ گیا ؟

یہی وجہ ہے اس واقعہ پر نکیر کرتے ہوئے امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں :

امام ذھبی سیر اعلام میں ابن الحکم سے اس واقعے کا کچھ حصہ ذکر کرکے اسکا تعقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قلت: وعلى الإنصاف؟ لو قال قائل: بل هما سواء في علم الكتاب، والأول أعلم بالقياس، والثاني أعلم بالسنة، وعنده علم جم من أقوال كثير من الصحابة، كما أن الأول أعلم بأقاويل علي، وابن مسعود، وطائفة ممن كان بالكوفة من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فرضي الله عن الإمامين، فقد صرنا في وقت لا يقدر الشخص على النطق بالإنصاف – نسأل الله السلامة -.

(سیر اعلام النبلاء جلد ۸ ،ص ۱۱۲)

میں کہتا ہوں ! انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کتاب اللہ کا علم ہونے کے حوالے سے یہ دونوں حضرات (ابو حنیفہ و مالک) برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ،

پہلے والے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ)قیاس واجتیہاد کے بارے میں زیادہ علم رکھتے ہیں اور دوسرے صاحب (یعنی امام مالک )سنت کا زیادہ علم رکھتے ہیں انکے پاس صحابہ کے اقوال کا بہت سارا ذخیرہ ہے (امام ابو حنیفہ کے مقابل)

اور جیسا کہ پہلے صاحب (یعنی امام ابو حنیفہ) کے پاس حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کوفہ میں موجود (تما م) صحابہ کرام کے اقوال کے بارے میں زیادہ علم موجود ہے (امام مالک کے مقابل) تو اللہ تعالیٰ ان دونوں اماموں سے راضی ہو۔

ہم ایک ایسے وقت میں آگئے ہیں جس میں آدمی انصاف کے ساتھ برنے کی قدرت ہی نہیں رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں

باقی امام محمد اور امام ابو یوسف اور امام زفر سے امام اعظم کی مداح و فضائل پر پھر کبھی ایک پوسٹ بناونگا ۔۔۔

لیکن بطور اشارہ اتنا کہہ دیتا ہوں کہ امام زفر امام سفیان ثوری کو امام ابو حنیفہ کے عام شاگردوں کے برابر بھی قرار نہ دیتے تھے اجتیہادی مسائل میں

تحقیق دعاگو:اسد الطحاوی الحنفی