وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(۱۰۱)

اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں(ف۲۱۰)توبنی اسرائیل سے پوچھو جب وہ (ف۲۱۱) ان کے پاس آیا تو اس سے فرعون نے کہا اے موسیٰ میرے خیال میں تو تم پر جادو ہوا(ف۲۱۲)

(ف210)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا وہ نو ۹ نشانیاں یہ ہیں (۱) عصا (۲) یدِ بیضا (۳) وہ عُقدہ جو حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبانِ مبارک میں تھا پھر اللہ تعالٰی نے اس کو حل فرمایا (۴) دریاکا پھٹنا اور اس میں رستے بننا (۵) طوفان (۶) ٹیڑی (۷)گھن (۸) مینڈک (۹) خون ، ان میں سے چھ ۶ آخر کا مفصّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گذر چکا ۔

(ف211)

حضرت موسٰی علیہ السلام ۔

(ف212)

یعنی معاذ اللہ جادو کے اثر سے تمہاری عقل بجا نہ رہی یا مسحور ساحر کے معنٰی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ عجائب جو آپ دکھلا تے ہیں یہ جادو کے کرشمہ ہیں اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىٕرَۚ-وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا(۱۰۲)

کہا یقیناً تو خوب جانتا ہے (ف۲۱۳) کہ انہیں نہ اتارا مگر آسمانوں اور زمین کے مالک نے دل کی آنکھیں کھولنے والیاں (ف۲۱۴) اور میرے گمان میں تو اے فرعون تو ضرور ہلاک ہونے والا ہے(ف۲۱۵)

(ف213)

اے فرعونِ معانِد ۔

(ف214)

کہ ان آیات سے میرا صدق اور میرا غیر مسحور ہونا اور ان آیات کا خدا کی طرف سے ہونا ظاہر ہے ۔

(ف215)

یہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرف سے فرعون کے اس قول کا جواب ہے کہ اس نے آپ کو مسحور کہا تھا مگر اس کا قول کذب و باطل تھا جسے وہ خود بھی جانتا تھا مگر اس کے عناد نے اس سے کہلایا اور آپ کا ارشاد حق و صحیح چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا ۔

فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ(۱۰۳)

تو اس نے چاہا کہ ان کو (ف۲۱۶)زمین سے نکال دے تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو سب کو ڈبو دیا (ف۲۱۷)

(ف216)

یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام کو اور ان کی قوم کو مِصر کی ۔

(ف217)

اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو اور ان کی قوم کو ہم نے سلامتی عطا فرمائی ۔

وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ(۱۰۴)

اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا اس زمین میں بسو (ف۲۱۸)پھر جب آخرت کاوعدہ آئے گا(ف۲۱۹)ہم تم سب کو گھال میل لے آئیں گے (ف۲۲۰)

(ف218)

یعنی زمینِ مِصر و شام میں ۔ ( خازن و قرطبی)

(ف219)

یعنی قیامت ۔

(ف220)

موقفِ قیامت میں پھر سُعداء اور اشقیاء کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیں گے ۔

وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕ-وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵)

اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا اور حق ہی کے ساتھ اترا (ف۲۲۱) اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا

(ف221)

شیاطین کے خلط سے محفوظ رہا اورکسی تغیُّر نے اس میں راہ نہ پائی ۔ تبیان میں ہے کہ حق سے مراد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے ۔

فائدہ : آیتِ شریفہ کا یہ جملہ ہر ایک بیماری کے لئے عمل مجرب ہے ، موضعِ مرض پر ہاتھ رکھ کر پڑھ کر دم کر دیا جائے تو باذنِ اللہ بیماری دور ہو جاتی ہے ۔ محمد بن سماک بیمار ہوئے تو ان کے متوسّلِین قارورہ لے کر ایک نصرانی طبیب کے پاس بغرضِ علاج گئے ، راہ میں ایک صاحب ملے نہایت خوش رو و خوش لباس ان کے جسمِ مبارک سے نہایت پاکیزہ خوشبو آ رہی تھی انہوں نے فرمایا کہاں جاتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا ابنِ سماک کا قارورہ دکھانے کے لئے فلاں طبیب کے پاس جاتے ہیں انہوں نے فرمایا سبحان اللہ اللہ کے ولی کے لئے خدا کے دشمن سے مدد چاہتے ہو قارورہ پھینکو واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر پڑھو بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ یہ فرما کر وہ بزرگ غائب ہو گئے ان صاحبوں نے واپس ہو کر ابنِ سماک سے واقعہ بیان کیا انہوں نے مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر یہ کلمے پڑھے فوراً آرام ہو گیا اور ابنِ سماک نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر تھے علی نبینا وعلیہ السلام ۔

وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا(۱۰۶)

اور قرآن ہم نے جدا جدا کرکے (ف۲۲۲) اتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو (ف۲۲۳) اور ہم نے اسے بتدریج رہ رہ کر اتارا (ف۲۲۴)

(ف222)

تئیس سال کے عرصہ میں ۔

(ف223)

تاکہ اس کے مضامین بآسانی سننے والوں کے ذہن نشین ہوتے رہیں ۔

(ف224)

حسبِ اقتضائے مصالح و حوادث ۔

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْاؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ(۱۰۷)

تم فرماؤ کہ تم لوگ اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (ف۲۲۵)بےشک وہ جنہیں اس کے اترنے سے پہلے علم ملا (ف۲۲۶) جب ان پر پڑھا جاتا ہے ٹھوڑی کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں

(ف225)

اور اپنے لئے نعمتِ آخرت اختیار کرو یا عذابِ جہنّم ۔

(ف226)

یعنی مومنینِ اہلِ کتاب جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے انتظار و جستجو میں تھے حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی بعثت کے بعد شرفِ اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل اور سلمان فارسی اور ابو ذر وغیر ہم رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔

وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(۱۰۸)

اور کہتے ہیں پاکی ہے ہمارے رب کو بےشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونا تھا (ف۲۲۷)

(ف227)

جو اس نے اپنی پہلی کتابوں میں فرمایا تھا کہ نبیٔ آخر الزماں محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مبعو ث فرمائیں گے ۔

وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩(۱۰۹)

اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں(ف۲۲۸)روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے (ف۲۲۹)

(ف228)

اپنے ربّ کے حضور عجز و نیاز سے نرم دلی سے ۔

(ف229)

مسئلہ : قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے ۔ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے کہ وہ شخص جہنّم میں نہ جائے گا جو خوفِ الٰہی سے روئے ۔

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَؕ-اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىۚ-وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا(۱۱۰)

تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں (ف۲۳۰)اور اپنی نماز نہ بہت آواز سے پڑھو نہ بالکل آہستہ اور ان دونوں کے بیچ میں راستہ چاہو(ف۲۳۱)

(ف230)

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔

(ف231)

یعنی متوسط آواز سے پڑھو جس سے مقتدی بہ آسانی سن لیں ۔

شانِ نُزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکّۂ مکرّمہ میں جب اپنے اصحاب کی امامت فرماتے تو قراء ت بلند آواز سے فرماتے ، مشرکین سنتے تو قرآنِ پاک کو اور اس کے نازِل فرمانے والے کو اور جن پر نازِل ہو ان سب کو گالیاں دیتے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔

وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا۠(۱۱۱)

اور یوں کہو سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنے لیے بچہ اختیار نہ فرمایا (ف۲۳۲) اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں(ف۲۳۳)اور کمزوری سے کوئی اس کا حمایتی نہیں (ف۲۳۴) اور اس کی بڑائی بولنے کو تکبیر کہو (ف۲۳۵)

(ف232)

جیسا کہ یہود و نصارٰی کا گمان ہے ۔

(ف233)

جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں ۔

(ف234)

یعنی وہ کمزور نہیں کہ اس کوکسی حمایتی اور مددگار کی حاجت ہو ۔

(ف235)

حدیث شریف میں ہے روزِ قیامت جنّت کی طرف سب سے پہلے وہی لوگ بلائے جائیں گے جو ہر حال میں اللہ کی حمد کرتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بہترین دعا ” اَلْحَمْدُ لِلہِ ” ہے اور بہترین ذکر لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ ۔ (ترمذی) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک چار کلمے بہت پیارے ہیں ۔ ‘ ‘ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللہُ ، اَللہُ اَکْبَرُ ، سُبْحَانَ اللہِ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ”۔

فائدہ : اس آیت کا نام آیت العز ہے ، بنی عبدالمطلب کے بچّے جب بولنا شروع کرتے تھے تو ان کو سب سے پہلے یہی آیت ‘ ‘ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ” سکھائی جاتی تھی ۔