بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

اس سورت کا نام سورۂ کہف ہے ، یہ سورت مکّیہ ہے اس میں ایک سو د س ۱۱۰ آیتیں اور ایک ہزار پانچ سو ستتّر ۱۵۷۷کلمے اور چھ ہزار تین سو ساٹھ۶۳۶۰ حرف ہیں ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ(۱)

سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنے بندے (ف۲) پر کتاب اتاری (ف۳)اور اس میں اصلاً کجی نہ رکھی(ذرا بھی ٹیڑھا پن نہ رکھا)(ف۴)

(ف2)

محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔

(ف3)

یعنی قرآنِ پاک جو اس کی بہترین نعمت اور بندوں کے لئے نجات و فلاح کا سبب ہے ۔

(ف4)

نہ لفظی ، نہ معنوی ، نہ اس میں اختلاف ، نہ تناقض ۔

قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ(۲)

عدل والی کتاب کہ (ف۵) اللہ کے سخت عذاب سے ڈرائے اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے

(ف5)

کُفّار کو ۔

مَّاكِثِیْنَ فِیْهِ اَبَدًاۙ(۳)

جس میں ہمیشہ رہیں گے

وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۗ(۴)

اور ان (ف۶) کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا کوئی بچہ بنایا

(ف6)

کُفّار ۔

مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىٕهِمْؕ-كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا(۵)

اس بارے میں نہ وہ کچھ علم رکھتے ہیں نہ ان کے باپ دادا (ف۷) کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نرا (بالکل)جھوٹ کہہ رہے ہیں

(ف7)

خالص جہالت سے یہ بہتان اٹھاتے اور ایسی باطل بات بکتے ہیں ۔

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)

تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر (ف۸) ایمان نہ لائیں غم سے (ف۹)

(ف8)

یعنی قرآن شریف پر ۔

(ف9)

اس میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تسلّیٔ قلب فرمائی گئی کہ آپ ان بے ایمانوں کے ایمان سے محروم رہنے پر اس قدر رنج و غم نہ کیجئے اور اپنی جانِ پاک کو اس غم سے ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷)

بےشک ہم نے زمین کا سنگار کیا جو کچھ اس پر ہے (ف۱۰)کہ انہیں آزمائیں ان میں کس کے کام بہتر ہیں (ف۱۱)

(ف10)

وہ خواہ حیوان ہو یا نبات یا معادن یا انہار ۔

(ف11)

اور کون زہد اختیار کرتا اور محرّمات و ممنوعات سے بچتا ہے ۔

وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ(۸)

اور بےشک جو کچھ اس پر ہے ایک دن ہم اسے پٹ پر(چٹیل، بے کار)میدان کر چھوڑیں گے (ف۱۲)

(ف12)

اور آباد ہونے کے بعد ویران کر دیں گے اور نبات و اشجار وغیرہ جو چیزیں زینت کی تھیں ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا تو دنیا کی ناپائیدار زینت پر شیفتہ نہ ہو ۔

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِۙ-كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(۹)

کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے (ف۱۳) ہماری ایک عجیب نشانی تھے

(ف13)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں اصحابِ کہف ہیں ، آیت میں ان اصحاب کی نسبت فرمایا کہ وہ ۔

اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰)

جب ان جوانوں نے(ف۱۴)غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے (ف۱۵) اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی(راہ پانے) کے سامان کر

(ف14)

اپنی کافِر قوم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے ۔

(ف15)

اور ہدایت و نصرت اور رزق و مغفرت اور دشمنوں سے امن عطا فرما ۔

اصحابِ کہف : قوی ترین اقوال یہ ہے کہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت پر جو خازن میں ہے ان کے نام یہ ہیں (۱) مکسلمینا(۲) یملیخا (۳) مرطونس (۴) بینونس (۵) سارینونس (۶) ذونوانس (۷) کشفیط طنونس اور ان کے کتّے کا نام قطمیر ہے ۔

خوّاص : یہ اسماء لکھ کر دروازے پر لگا دیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے ، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں جاتا ، کَشتی یا جہاز ان کی برکت سے غرق نہیں ہوتا ، بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آ جاتا ہے ، کہیں آ گ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں لکھ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے ، بچّے کے رونے ، باری کے بخار ، دردِ سر ، امّ الصبیان ، خشکی و تری کے سفر میں جان و مال کی حفاظت ، عقل کی تیزی ، قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کر بطریقِ تعویذ بازو میں باندھے جائیں ۔ (جمل)

واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعد اہلِ انجیل کی حالت ابتر ہو گئی وہ بُت پرستی میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مجبور کرنے لگے ان میں دقیانوس بادشاہ بڑا جابر تھا جو بُت پرستی پر راضی نہ ہوتا اس کو قتل کر ڈالتا ، اصحابِ کہف شہرِ اُفْسُوسْ کے شرفاء و معزّزین میں سے ایماندار لوگ تھے ، دقیانوس کے جبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے ، وہاں سو گئے تین سوبرس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے ، بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کر دیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہو جائے یہی ان کی سزا ہے ، عمّالِ حکومت میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا اس نے ان اصحاب کے نام ، تعداد ، پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکندہ کرا کر تا نبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کر دیا ، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا ، زمانے گزرے ، سلطنتیں بدلیں تا آنکہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا اس کا نام بیدروس تھا جس نے اڑسٹھ سال حکومت کی پھر مُلک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکِر ہو گئے ، بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ و زاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی یاربّ کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے خَلق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو ، اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور دیوار گرا دی ، دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے ، اصحابِ کہف بحکمِ الٰہی فرحاں و شاداں اٹھے ، چہرے شگفتہ ، طبیعتیں خوش ، زندگی کی ترو تازگی موجود ، ایک نے دوسرے کو سلام کیا ، نماز کے لئے کھڑے ہو گئے ، فارغ ہو کر یملیخا سے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس کا ہم لوگوں کی نسبت کیا ارادہ ہے ؟ وہ بازار گئے اور شہرِ پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی ، نئے نئے لوگ پائے ، انہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نام کی قَسم کھاتے سنا ، تعجّب ہوا یہ کیا معاملہ ہے کل تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کر سکتا تھا ، حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نام لینے سے قتل کر دیا جاتا تھا آج اسلامی علامتیں شہرِ پناہ پر ظاہر ہیں ، لوگ بے خوف و خطر حضرت عیسٰی کے نام قَسمیں کھاتے ہیں پھر آپ نان پز کی دوکان پر گئے کھانے خریدنے کے لئے اس کو دقیانوسی سکّہ کا روپیہ دیا جس کا چلن صدیوں سے موقوف ہو گیا تھا اور اس کا دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا ، بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کی ہاتھ آ گیا ہے انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے ، وہ نیک شخص تھا اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے ، حاکم نے کہا یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں اس میں جو سَنہ موجود ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ہم لوگ بوڑھے ہیں ، ہم نے تو کبھی یہ سکّہ دیکھا ہی نہیں ، آپ نے فرمایا میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہو جائے گا، یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال و خیال میں ہے ؟ حاکم نے کہا آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ، سینکڑوں برس ہوئے جب ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے ، آپ نے فرمایا کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں ، چلو میں تمہیں ان سے ملا دوں ، حاکم اور شہر کے عمائد اور ایک خَلقِ کثیر ان کے ہمراہ سرِ غار پہنچے ، اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز اور کھٹکے سن کر سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آ رہی ہے اللہ کی حمد اور شکر بجا لانے لگے اتنے میں یہ لوگ پہنچے ، یملیخا نے تمام قصّہ سنایا ، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم بحکمِ الٰہی اتنا طویل زمانہ سوئے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے بعدِ موت زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی ہوں ، حاکم سرِ غار پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا اس کو کھولا تو تختی برآمد ہوئی اس تختی میں ان اصحاب کے اسماء اور ان کے کتّے کا نام لکھا تھا ، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی ، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کر دینے کا حکم دیا ، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں جب کبھی یہ غار کُھلے تو لوگ حال پر مطّلع ہو جائیں ، یہ لوح پڑھ کر سب کو تعجّب ہوا اور لوگ اللہ کی حمد و ثناء بجا لائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرما دی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے ، حاکم نے اپنے بادشاہ بیدروس کو واقعہ کی اطلاع دی اور امراء و عمائد کو لے کر حاضر ہوا اور سجدۂ شکرِ الٰہی بجا لایا کہ اللہ تعالٰی نے اس کی دعا قبول کی ، اصحابِ کہف نے بادشاہ سے معانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں والسلام علیک و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، اللہ تیری اور تیرے مُلک کی حفاظت فرمائے اور جنّ و انس کے شر سے بچائے ۔ بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللہ تعالٰی نے انہیں وفات دی ، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اجساد کو محفوظ کیا اور اللہ تعالٰی نے رعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے ، بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک سرور کا دن معیّن کیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں ۔ (خازن وغیرہ )

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں عرس کا معمول قدیم سے ہے ۔

فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ سِنِیْنَ عَدَدًاۙ(۱۱)

تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا (ف۱۶)

(ف16)

یعنی انہیں ایسی نیند سلا دیا کہ کوئی آواز بیدار نہ کر سکے ۔

ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا۠(۱۲)

پھر ہم نے انھیں جگایا کہ دیکھیں (ف۱۷)دو گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے

(ف17)

کہ اصحابِ کہف کے ۔