عظمت مسجد کے چند نقوش۔۔۔چند یادیں

از قلم:

فقیر محمد اسلم رضوی چشتی (خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ بھیرہ شریف)

علم صرف کے ماہرین کے مطابق مسجدٌ ظرف کا صیغہ ہے۔

جسکا مادۂ اشتقاق سَجَدَ یَسْجُدُ سُجُوْدًا ہے۔۔۔۔یہ ثلاثی مجرّد کے ابواب میں سے نَصَرَ یَنْصُرُ یعنی فَعَلَ یَفْعُلُ کے وزن پر ہے۔۔۔۔اس کا معنی ہےسجدہ کرنے کی جگہ۔

سجدہ کیا ہے؟؟؟

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

واسجد واقترب

سجدہ کر اور قرب الہٰی کے زینے طے کرتا جا۔

بدن انسانی کے تمام اعضاء میں سے ناک اور ماتھا سب سے زیادہ عزت کی جگہیں ہیں انسان جب اللہ کریم کی عزت وعظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ناک اور پیشانی کو خاک آلود کرتا ہے۔۔۔۔تو فیاض مطلق کے دریائے کرم میں جوش آ جاتا ہے اور اللہ کریم اپنے بندے کے کاسۂ شوق میں رحمت کی خیرات ڈال دیتا ہے۔۔۔۔ویسے تو زمین کے ہر حصے پر ہی یہ اعزاز حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔لیکن خاص طور پر جس جگہ یہ کرم کی برکھا اپنے پورے جوبن پر برستی ہے اس مَحل کو مسجد کہتے ہیں۔

👈عرشی محبوب و مقصود کی تجلیات فرش کے جس ٹکڑے پر سب سے زیادہ برستی ہیں اور جسکو اس ہستی نے اپنی ذات کے ساتھ اختصاص بخش رکھا ہے اسکو مسجد کہتے ہیں۔

و اَنّ المَسَاجِدَ للہ

(لوگو!دھیان سے پڑھو اور سن لو) بیشک مسجدیں اللہ کیلئے ہیں۔

👈وہ سٹیشن جہاں یہ طالب صادق اپنے مطلوب حقیقی سے کمال شوق اور عاجزی کیساتھ ملاقات کا شرف شرف پاتا ہے اور الصلوۃ معراج المومنین کی حدیث اپنی معنوی ثروتوں کے یواقیت و جواہر لٹا رہی ہوتی ہے اس سٹیشن کو مسجد کہتے ہیں۔

👈وہ مقام جہاں پہ کھڑا ہونے والے بندۂ عاجز کے راھوارِ شوق کو باِیں الفاظ مہمیز لگائی جاتی ہے۔

ان تعبد اللہ کانک تراہ

یعنی اپنے تصور کے کیمرے کو اتنی بلندیوں پر فٹ کر کے تو انوار ربانی کے دیدار کی لذات سرمدی سمیٹنے لگے اور تیرے احساس و ادراک کی ساری صلاحیتوں کا حج ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس مقام پہ یہ دریچہ نور وا ہوتا ہے اسکو مسجد کہتے ہیں۔

👈اللہ کا وہ گھر عبادت کی نیت سے جس کی طرف اٹھنے والا ہر قدم انسان کے درجے بلند کر دیتا ہے۔۔۔۔اسکے گناہ مٹا دیتا ہے اور بالآخر صاحب اشتیاق کو حریم قدرت کا راز آشنا بنا دیتا ہے۔۔۔۔اسکو مسجد کہتے ہیں۔

👈مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں پہ بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کے لیے، تدارس قرآن کرنے والوں کے لیے، اسرار قرآنی کھولنے والوں کیلئے اور حقائق قرآنی سے پردہ اٹھانے والوں کیلئے فیاض ازل چار گرانقدر انعامات کا وعدہ فرماتا ہے۔

1️⃣سکینہ کا نزول یعنی ان لوگوں پر نزول سکینہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔نتیجتاً انکا اضطراب مسافر ہو جاتا ہے۔

2️⃣انکو اپنے سائبان رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔۔۔۔۔زحمتیں پھر اسکا رخ نہیں کر سکتیں۔

3️⃣سدرہ نشین اسکے ہم نشین ہو جاتے ہیں اور یہ تکریم اس بندۂ مومن کو اس وقت تک نصیب رہتی ہے جب تک وہ قرآن مقدس میں مشغول رہتا ہے۔

4️⃣اللہ کریم اپنے مقرب فرشتوں میں اپنی زبان قدرت سے جیسے اسکے شایان شان ہے۔۔۔۔۔اپنے اس بندے کا ذکر کرتا ہے۔

مَاجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللہِ ویَتَدَا رَسُوْنَہ بَیْنَھُمْ اِلّا نَزَلَتْ عَلَیْھِمْ السَّکِیْنَۃُ و غَشِیَتْھُم الرَحْمَۃُ و حَفَّتْھُمُ المَلائِکَۃُ و ذَکَرَھُمْ اللّٰہ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ

(ترمذی شریف 3378)

گویا مسجد اللہ تعالیٰ کے انعامات نفسیہ کا مرکز ہے۔۔۔یہی وہ عمارت ہے۔۔۔۔جسکا گارا اٹھانا اور اسکی دیواروں میں پتھر چننا اللہ کے خلیل علیہ السلام اور حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔

👈یہی وہ شرف و کرامت کی دنیا میں کلیدی حیثیت رکھنے والا پُرنور گھر ہے جس میں چڑیا کے گھونسلے کی مقدار شراکت بھی انسان کو جنت کے قصر رفیع کا مالک بنا دیتی ہے۔

مَنْ بَنٰی مَسْجدًا قدْر مَفْحَصِ قَطَاۃٍ بَنَی اللہُ لہٗ بَیْتًا فِیْ الجَنّۃِ

(ترمذی شریف، حدیث 318)

👈مسجد ہی وہ یمن و برکت کا مرکز ہے جو کشتگان تیغ محبت کا ملجا و مأوی ہے۔

👈مسجد ہی وہ گلشن معرفت ہے جہاں سے عرفان الٰہی کی خوشبوئیں چہار سو پھیلتی رہتی ہیں۔

👈مسجد ہی وہ مرکز سکون ہے جہاں الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (سورۃ الرعد آیت 43) کے مطابق غموں کے جال میں پھنسے ھوؤں کو سکون و اطمینان کی دولت بکثرت نصیب ہوتی ہے۔

👈مسجد ہی وہ امن کا گھر ہے جس میں داخل ہونے والا پروردگار کی آغوش کرم(کما یلیق) میں جگہ پا لیتا ہے۔

👈مسجد متانت وسنجیدگی کا ایسا مرکز ہے جس میں کسی قسم کی اخلاقی گراوٹ اور کسی قسم کی بیہودگی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

👈مسجد روحانی شفا خانے کا نام ہے۔۔۔۔اسکے تقدس پر حملہ آور ہونا اور اسکو کنجر خانہ بنانا یہ کسی خسیس النسل، غلیظ العمل اور قبیح الفطرت شیطانی چمچے کا ہی کام ہو سکتا ہے۔۔۔۔کسی شریف اور خاندانی انسان سے ایسی توقع کبھی نہیں کی جا سکتی۔

👈مسجد کے ساتھ قلبی تعلق بندۂ مومن کو میدان محشر کی جھلسا دینے والی گرمی اور ہلاک کردینے والے پسینے سے نجات دلا کر پروردگار کے عرش عظیم کے خنک سائے میں لے جائے گا۔ جسکا مقابلہ نہ کسی درخت کا سایہ کر سکتا ہے اور نہ ائیر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈی ہوا کر سکتی ہے۔ اس بندے کا شمار ان سات قسم کے لوگوں میں ہو جاتا ہے۔۔۔۔جن سے عرش عظیم کے سائے کا وعدہ حدیث مبارکہ میں کیا گیا ہے۔

👈حضرت تمیم داری صحابی رسول ایک دفعہ ایک ایسے علاقے میں تشریف لے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں لیمپ بنائے جاتے تھے انھوں نے سوچا کیوں نہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد شریف کے لیے لیمپ لے جاؤں۔۔۔۔۔آپ نے وہاں سے لیمپ خریدے۔۔۔۔واپسی ہوئی تو عصر کی نماز آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقتدا میں ادا کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے بعد کاشأنہ اقدس میں تشریف لے گئے۔۔۔۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے بڑی مناسبت سے مسجد کے ہال میں لیمپ فٹ کر دیئے۔۔۔۔اور ان میں تیل ڈال کر جلا دیا۔۔۔۔۔نماز مغرب کے وقت دلنوازیوں کی دنیا کے بادشاہ رحمة للعلمین کی شان کے مالک کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا ئے۔۔۔۔۔تو دیکھا مسجد جگمگ جگمگ کر رہی ہے۔۔۔۔۔ہر طرف چراغاں ہے روشنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اتنا مسرور ہوا کہ نماز مغرب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوئے بندہ نوازی سے پوچھا یہ لائٹنگ کا انتظام کس نے کیا ہے۔۔۔۔۔تمیم داری رضی اللہ عنہ نے ادب و محبت کا مجسمہ بن کر عرض کی میرے کریم یہ سعادت میں نے حاصل کی ہے۔۔۔۔۔فلاں علاقہ میں گیا تھا وہاں سے آپکی مسجد شریف کے لیے لایا ہوں۔۔۔۔۔فرمایا تمیم داری میں تجھے کیا بتاؤں کہ تیرا نبی تیرے اس حسن عمل سے کتنا مسرور ہے آج اگر میری ایک بیٹی اور ہوتی تو میں اسے تیرے عقد نکاح میں دے دیتا۔

9،8 جولائی 1935ء کی درمیانی رات کو سکھوں نے لاہور میں مسلمانوں کی مسجد گرا دی کا واقعہ ہے۔۔۔۔۔یہ خبر اس غیرت مند جوان پر بجلی بن کر گری۔۔۔سترہ سال کا یہ نوجوان۔۔۔۔۔سکھوں کے مسجد گرانے کی خبر سن کر وہ بہت کبیدہ خاطر تھا۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں موتیوں سے قیمتی آنسوؤں کے قطرے قلبی اضطراب کے عکاس تھے۔۔۔۔اسکا تازہ گلاب کی شادابیوں کا حامل چہرہ بھی مرجھایا مرجھایا لگ رہا تھا۔۔۔۔وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتا تو اسکے رکوع و سجود معمول سے زیادہ لمبے ہوچکے تھے۔۔۔۔۔ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے تو کافی دیر تک اٹھے ہی رہتے۔۔۔۔۔کھانا بھی حلق سے بمشکل ہی نیچے اتر رہا تھا۔۔۔۔اندر ہی اندر وہ کوئی بہت بڑی مہم کی منصوبہ سازی میں مشغول تھا۔۔۔۔پھر اسکے ضمیر کے قاضی نے فیصلہ سنا دیا۔۔۔۔محمد کرم شاہ۔۔۔۔سکھ گماشتے الله کے گھر کی بے حرمتی کرتے رہیں اور بے دردی اور سفاکی سے اسکی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیری جوانی کس خاطر ہے؟

کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپاہج ہو چکا ہے؟

کیا تیری غیرت دفن ہو چکی ہے؟

کیا تو ان میں سے کسی ایک کمینے کا سینہ چاک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟؟

سکھ۔۔۔۔رب کے مقدس گھر کو گراتے رہیں تو تیری زندگی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟

لاہور کا رخ کر اور توڑ دے ان پلیدوں کے بازو۔۔۔۔جن سے انھوں نے اللہ کا گھر مسمار کیا ہے۔۔۔۔دل کے قاضی کا فیصلہ سن کر اس نوجوان نے لاہور جانے کے لیے سفر شروع کردیا۔۔۔۔ادھر آپکے والد گرامی حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب دو نمازوں پہ بیٹے کو غیر حاضر پایا تو فراست مومنانہ سے بھانپ لیا کہ میرا سعید الفطرت، مجاھد صفت فرزند لگتا ہے۔۔۔۔۔دشمنوں سے بدلہ لینے کے لیے لاہور روانہ ہو گیا ہے۔

آپ نے خادم کو پیچھے دوڑایا اور فرمایا جہاں بھی محمد کرم شاہ کو پاؤ تو انھیں میرا پیغام دینا کہ واپس گھر آجائیں۔۔۔۔خادم بذریعہ ٹرین لالہ موسی پہنچا۔۔۔۔تو دیکھا کہ حضرت پیر محمد کرم شاہ ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر غم و غصہ کی فاروقی و حیدری کیفیات کا مظہر بن کر بیٹھے ہیں اور لاہور جانے والی ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔خادم نے جا کر والد محترم کا حکم نامہ سنایا تو تسلیم و رضا کی ادائیں تو گویا جیسے قدسیوں سے سیکھی ہوں۔۔۔۔والد محترم کا حکم نامہ سن کر واپس پلٹ آئے۔۔۔۔ بھیرہ شریف پہنچے۔۔۔۔۔تو ولایت کے منصب رفیع پر فائز والد گرامی نے روزنِ مستقبل میں جھانک کر ارشاد فرمایا:

“پیارے بیٹے آپ کے ذمے جہاد اصغر نہیں بلکہ جہاد اکبر ہے۔۔۔۔۔بیٹا اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو”

والد بزرگوار نے فرمایا۔۔۔۔وہ لاہور والا ٹکٹ مجھے دکھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹے نے ٹکٹ پیش کی تو باپ نے فرطِ شوق سے وہ ٹکٹ چوم لی اور ساتھ فرمایا:

یہ ٹکٹ وقت تدفین میری قبر میں رکھ دینا۔۔۔۔میرے بیٹے نے غیرت اسلامی سے یہ ٹکٹ خریدی ہے۔۔۔۔یقینا اس وجہ سے اللہ کریم میرے اوپر مہربان ہو جائے گا۔

👈مسجد مومن کے لیے اتنی ہی قیمتی اور اہم ہے جتنا مچھلی کے لیے پانی اہم ہوتا ہے۔۔۔۔مومن مسجد کے ماحول کو اپنے لیے حیات بخش سر چشمہ سمجھتا ہے جبکہ منافق کے لیے مسجد اسی طرح گراں ہوتی ہے جیسے پرندے کے لیے پنجرہ ہوتا ہے۔

المؤمن فی المسجد کالسمک فی الماء والمنافق فی المسجد کالطیر فی القفس

(تنبیہ الغافلین)

مسجد بنانے والا اور اسکو آباد کرنے والا الله کا محبوب ہوتا ہے۔۔۔۔جبکہ اسکو نفرت کی بنیاد پر گرانے والا، اسکے تقدس کو پامال کرنے والا، اس میں ذکر الہیٰ سے روکنے والا اور مسجد کی بربادی کا باعث بننے والا الله، رسول کی نظر میں قابل نفرت اور مبغوض ترین شخص بن جاتا یے۔

قرآن نے اسکو سب سے بڑا ظالم کہا ہے۔

ومَنْ اَظْلَمَ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ اَنْ یُذْکَرَ فِیھَا اسْمُهٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِھَا

(سورۃ البقرہ 114)

ترجمہ:

اس انسان سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے۔۔۔جو مسجدوں میں الله کا ذکر کرنے سے منع کرے اور مسجد کی خرابی کا باعث بنے۔

قدر پھلاں دی گرج کی جانے مردے کھاون والی

قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغاں والی

قدر نبی دی ایہہ کی جانن دنیا دار کمینے

قدر نبی دی جانن والے سو گئے وچ مدینے

دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں مساجد کی آبادکاری کا شرف نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم