زبیر زئی کا امام یحییٰ بن معین الحنفیؒ سے منسوب امام المحدثین ابو یوسف و امام الفقہ امام ابی حنیفہ پر باطل جروحات کو تعدیل پر مقدم کرنے اور جروحات کو تعدیل کی ناسخ بنانے پر علمی رد

(بقلم اسد الطحاوی الحنفی البریلوی )

امام یحییٰ بن معین جن سے امام ابی یوسف اور امام ابو حنیفہ پر فقط تعدیل ہی صحیح الاسناد سے مروی ہے اور ابی حنیفہ و صاحبین کی نہ صرف توثیق مروی ہے امام ابن معین سےبلکہ مداح و ثناء اور دفاع بھی ثابت ہے لیکن زبیری زئی نے لوگوں کو دھوکا دینے اور اپنے ننے منے مقلدین کو مغالطہ دینے کے لیے لکھا کہ امام ابن معین سے چونکہ جرح بھی ثابت ہے تو توثیق منسوخ ہو گئی

یا تعدیل کے سامنے جرح بھی ثابت ہے تو دونوں اقوال ساقط ہوئے

زبیری زئی کی اس پھکی کو اسکے ننے منے مقلدین بچوں نے تو ہضم کر لیا آنکھیں بند کر کے لیکن زبیری زئی نے یہ بات محدثین کی تصریحات کے خلاف بیان کی ہے جسکی مختصر تفصیل ہم پیش کرتے ہیں

یہ یاد رہے امام یحییٰ بن معین سے جہاں اور سب انکے شاگرد امام ابی یوسف اور امام ابو حنیفہ کے بارے میں مداح ، ثناء اور دفاع بیان کرتے ہیں

وہی امام یحییٰ بن معین کے فقط دو شاگرد

۱۔ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ (ضعیف )

۲۔ احمد بن سعد بن ابی مریم (متعصب یا صاحب منکرات)

ہیں

محمد بن عثمان ابن ابی شیبہ تو جمہور کے نزدیک مجروح ہے

جیسا کہ ضعیف

امام زرکشی

امام ذھبی

امام ابن حجر

امام سخاوی

امام بیھقی

وغیرہ نے قرار دیا ہوا ہے

اور دوسرا شاگرد احمد بن سعد بن ابی مریم جو کہ صدوق و حسن الحدیث راوی ہے

لیکن یہ امام یحییٰ بن معین سے احناف کے تعلق سے جرح لا یکتب حدیثہ بیان کرنے میں منفرد ہے لا یکتب حدیثہ ویسے تو مبہم ہے لیکن یہ اضافہ فقط یہی اپنی طرف سے ملا کر کرتا ہے اور امام یحییٰ بن معین سے منسوب کرتا ہے جسکی وجہ ہم کو اسکا احناف سے متعصب ہونا ظاہر ہوتا ہے

اور محدثین کی تصریح سے یہ امام یحییٰ بن معین کے شاگردوں کی مخالفت کرنے والا منکر الروایت ثابت ہوتا ہے

جیسا کہ اسکی تفصیل بیان کرتے ہیں

امام ابی حنیفہ نعمان بن ثابت کے شاگردوں میں جید ثقہ مامون محدثین تھے ان میں سے ایک امام اسد بن عمرو الحنفی بھی تھے

جنکو جمہور محدثین نے ثقہ صدوق قرار دیا

جیسا کہ

امام احمد بن منیع

امام احمد بن حنبل

امام ابن مدینی

امام نسائی

امام ابن عدی

امام خطیب

امام ذھبی

امام ابن حجر وغیرہ نے

لیکن ہم نے یہاں امام ابن معین کے اقوال میں دیکھنا ہے کہ احمد بن سعد ابن ابی مریم کیا بیان کرتا ہے امام یحییٰ بن معین سے اور باقی شاگرد امام یحییٰ بن معین سے کیا بیان کرتے ہیں

امام خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں انکی توثیق کرتے ہوئے انکوثقہ ان شاءاللہ کہنے کے بعد ناقدین سے انکی توثیق بیان کرتے ہوئے جب امام یحییٰ بن معین سے انکے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں تو پہلے وہ ابن ابی مریم سے امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کرتے ہیں :

أخبرنا أحمد بن عبد الله الأنماطي أخبرنا محمّد بن المظفّر أخبرنا على بن أحمد ابن سليمان المصريّ حَدَّثَنَا أحمد بن سعد بن أبي مريم قَالَ وسألته- يعني يحيى بن معين- عن أسد بن عمرو فقال: كذوب ليس بشيء، لا يكتب حديثه.

ابن ابی مریم کہتا ہے : میں نے سوال کیا امام یحییٰ بن معین سے اسد بن عمرو کے بارے

تو انہوں نے اسکو تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی شے بھی نہیں ہے اور اسکی حدیث بھی نہ لکھی جائے

یعنی ابن ابی مریم نے امام یحییٰ بن معین کی طرف کذوب جیسی بد ترین جرح منسوب کی اور اسکو مفسر بنانے کے لیے یہ بھی کہا کہ اسکی روایت بھی نہ لکھی جائے جیسا کہ متروک و متہم بل کذب راوی کی روایات نہیں لکھی جاتی ہیں متابعت و شواہد میں

اس قول کو نقل کرنے کے بعد امام خطیب بغدادی حیران ہوتے ہیں اور آگے لکھتے ہیں :

قلت: قد روى غيره عن يحيى بن معين خلاف هذا القول.

قلت میں ( خطیب بغدادی ) کہتا ہے کہ اس (ابن ابی مریم) کے علاوہ باقیوں نے امام یحییٰ بن معین سے اسکے بر عکس قول بیان کیا ہے

یہ بات لکھنے کے بعد امام خطیب بغدادی پھر امام یحییٰ بن معین کے شاگردوں سے جو کلمات درج کرتے ہیں وہ یہ ہیں

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن رزق أخبرنا هبة الله محمّد بن حبش الفراء حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة قَالَ: سمعت يحيى بن معين- وسأله أبو بديل التميمي عن أسد بن عمرو- فقال: كان لا بأس به.

(وہ سند صحیح الی محمد بن عثمان بن ابی شیبہ وھو ضعیف )

اسکی سند میں امام ابن معین کا شاگرد بن عثمان بن ابی شیبہ ضعیف ہے لیکن وہ امام یحییٰ بن معین سے بیان کرتا ہے کہ اسد بن عمرو میں کوئی حرج نہیں

چونکہ یہ راوی ضعیف ہے جو امام یحییٰ بن معین سے بیان کر رہا ہے تو امام خطیب بغدادی نے دیگر شاگردوں کے اقوال نقل کیے

أخبرنا الحسن بن على الجوهريّ أخبرنا عيسى بن على حدّثنا عبد الله بن محمّد البغوي حدثني عباس بن محمد قال سمعت يحيى بن معين يقول: أسد بن عمرو أوثق من نوح

(سند صحیح )

امام عباس بن محمد الدوری فرماتے ہیں یحییٰ بن معین نے کہا کہ اسد بن عمرو نوح سے زیادہ ثقہ ہے

اسکے بعد امام خطیب نے اور قول بیان کیا

أَخْبَرَنَا علي بْن المحسن أَخْبَرَنَا طلحة بْن محمّد حدّثنا ابن منيع حدثني عباس بن محمد الدوري قَالَ: سمعت يحيى بن معين يقول: كان أسد بن عمرو صدوقا، وكان يذهب مذهب أبي حنيفة، وكان سمع من مطرف، ويزيد بن أبي زياد، وولي القضاء، فأنكر من بصره شيئا، فرد عليهم القمطر، واعتزل القضاء. قال عباس:

وجعل يحيى يقول: رحمه الله، رحمه الله.

(سند حسن )

امام الدوری فرماتے ہیں :

میں نے امام یحییٰ بن معین سے سنا انہوں نے کہا کہ اسد بن عمرو یہ صدوق ہے

یہ امام ابی حنیفہ کے مذہب پر تھے انہوں نے مطرف ، یزید بن ابی زیاد سے سماع کیا اور یہ ولی القضاء بصرہ میں انہوں نے رد کیا کسی چیزوں میں اور واپس آگئے

امام عباس فرماتے ہیں امام یحییٰ بن معین نے پھر کہا : اللہ ان پر رحم کرے

(نوٹ یہاں امام یحییٰ بن معین کے متاخر مقدم شاگرد صدوق کی توثیق کے ساتھ امام ابن معین کا اسد بن عمرو کو دعا دینا بیان کر رہے ہیں جبکہ ابن ابی مریم نے کذوب اور لا یکتب حدیثہ جیسی بد ترین جرح پیش کی )

امام خطیب نے اسکے بعد ایک اور قول نقل کیا

أخبرني عبيد اللَّه بْن يَحْيَى السكري أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عبد الله الشافعي حدّثنا جعفر بن محمّد الأزهر حَدَّثَنَا ابن الغلابي قَالَ: قَالَ يحيى بن معين: أسد بن عمرو ثقه.

(سند صحیح )

امام ابن اغلابی فرماتے ہیں : یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ اسد بن عمرو ثقہ ہیں

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ابن ابی مریم جو امام یحییٰ بن معین سے احناف پر جروحات بنا کر پیش کرتا ہے یہ اسکی احناف سے تعصب کا نتیجہ ہے

ہم اسکو یہی قول امام ابن معین کا امام ابو یوسف کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ ابن ابی مریم نے کیا روایت کیا یحییٰ بن معین سے اور باقیوں نے کیا روایت کیا !

امام خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں امام المحدثین ابی یوسف سے ابن ابی مریم کے طریق سے امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کرتے ہیں :

أَخْبَرَنِي أَحْمَد بْن عبد الله الأنماطيّ، أخبرنا محمّد بن المظفّر الحافظ، أخبرنا علي ابن أحمد بن سليمان المصريّ، حَدَّثَنَا أحمد بن سعد بن أبي مريم قَالَ: وسألته- يعني يَحْيَى بْن معين- عَن أبي يوسف. فقال: لا يُكْتَبُ حديثه.

(سند صحیح )

ابن ابی مریم کہتا ہے : میں امام یحییٰ بن معین سے سوال کیا کہ ابی یوسف کے بارے تو انہوں نے فرمایا انکی روایات نہ لکھی جائیں

اسکو نقل کرنے کے بعد امام خطیب بغدادی پھر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛

قلت: قد رَوى غير ابن أبي مريم عَن يَحْيَى أَنَّهُ وثقه.

قلت : یعنی میں (خطیب بغدادی ) کہتا ہوں ابن ابی مریم کے علاوہ باقیوں نے یحییٰ بن معین سے ثقہ (کے کلمات) بیان کیے

پھر امام خطیب وہ توثیق نقل کرتے ہیں

أخبرنا الأزهري، حدثنا عَبْد الرَّحْمَن بْن عُمَر الخلال، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أحمد بن يعقوب، حَدَّثَنَا جدي قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَد بْن داود الحداني قَالَ: سمعتُ عِيسَى بْن يونس- وسئل عَن أبي يوسف- فقال: يعقوب؟ كَانَ يحفظ الحديث عِنْدَ الأعمش.

قَالَ جدي وذكره يَحْيَى بْن معين يومًا فقال كلامًا نسبه فِيهِ إلى الصدق لا أقدم عَلَيْهِ.

(سند صحیح )

محمد بن احمد بن یعقوب اپنے دادا سے کے واسطے سے احمد بن داود سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ بن یونس سے سوال کیا ابی یوسف کے بارے میں تو انہوں نے پوچھا یعقوب ؟ (یہ امام ابی یوسف کا نام ہے )

پھر فرمایا وہ امام الاعمش کی احادیث کے (سب سے بڑے) حافظ تھے

پھر انکے دادا نے کہا امام یحییٰ بن معین نے بھی ایک دن (اس کلام ) کی نسبت کی تصدیق کی

لیکن (راوی کا دادا ) کہتا ہے میں اسکو (کلام) کو صحیح نہیں سمجھتا

اسکے بعد امام خطیب نے ایک اور کلام نقل کیا

أَخْبَرَنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَد بْن رزق، أَخْبَرَنَا هبة الله بن محمد بن حبش الفرّاء، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بْن عُثْمَانَ بْن أَبِي شيبة قَالَ: وسمعته- يعني يَحْيَى بْن معين- وذكر لَهُ أَبُو يوسف القاضي فقال: لم يكن يُعرف بالحديث.

(و سند صحیح الی ابو جعفر وھو ضعیف )

یہاں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ جو کہ ضعیف ہے امام یحییٰ بن معین کے شاگردوں میں وہ کہتا ہے کہ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ امام ابو یوسف القاضی حدیث می معرفت پر مطلع نہ تھے

(نوٹ: یہاں ایک تو یہ راوی ضعیف ہے اور اس نے مکمل کلام ذکر نہیں کیا اور معرفت الحدیث کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا محدث جو ہر ثقہ و غیر ثقہ سے روایتیں بیان کرتا ہو یہ کوئی جرح نہیں )

اسکے بعد امام خطیب پھر یہ کلام اور سند صحیح سے بیان کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي عَبْد اللَّه بْن يَحْيَى السكري، أَخْبَرَنَا محمّد بن عبد الله الشّافعيّ، حدثنا جعفر بن محمّد بن الأزهر، حَدَّثَنَا ابن الغلابي قَالَ: قَالَ يحيى بن معين: أَبُو يوسف القاضي لَمْ يكن يعرف الحديث وهو ثقةٌ.

(وسند صحیح )

امام ابن الغلابی فرماتے ہیں :

امام یحییٰ بن معین نے کہا کہ ابی یوسف القاضی روایت حدیث کی معرفت پر مطلع نہیں تھے اور وہ ثقہ ہیں

پھر امام یحییٰ بن معین کے قول کی تفصیل امام خطیب نے ایک اور سند سے مکمل پیش کی ہے

أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بْن عمر الواعظ، حدثنا أبي، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْد الله بْن مهران المستملي، حَدَّثَنَا حسين بْن فهم قَالَ: سمعتُ أبي يسأل يَحْيَى بْن معين عَن أبي يوسف فقال: ثقة إذا حدث عن الثقات.

(وسند صحیح )

امام حسین بن فھم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یحییٰ بن معین سے سوال کرتے سنا ابی یوسف کے بارے:

تو امام یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ جب وہ (ابی یوسف ) ثقہ ہیں جب وہ ثقات سے بیان کریں

معلوم ہوا کہ معرفت الحدیث کا مطلب یہی ہے کہ وہ ابی یوسف ثقہ و غیر ثقہ سے روایت کرتے (جو کہ عام بات ہے لیکن امام یحییٰ بن معین کے دور میں جو حدیث کے بڑے بڑے حفاظ تھے جیسا کہ امام بن مدینی ، امام احمد بن حنبل ، امام ابن مھدی اور امام ابن مبارک اور امام شعبہ وغیرہ جو کہ فقط ثقہ سے بیان کرتے تھے اکثر اسی وجہ سے امام ابن معین نے یہ بات بیان کی ابی یوسف کے بارے میں کیونکہ حدیث میں امام ابی یوف کا مقام بھی انہی کے برابر تھا حدیث کو حفظ کرنے میں لیکن امام ابی یوسف رجال کی طرف اپنی معرفت کو صرف کرنے کی بجائے فقہ میں صرف کرتے جس کی وجہ سے وہ ابی حنیفہ کے بعد امام اعظم کی مسند پر بیٹھے اور فقہ کے مجتہد امام بنے امام اعظم کے اصولوں پر چل کر )

اور یہی ابن ابی مریم امام ابی حنیفہ کے بارے میں بھی لا یکتب حدیثہ جرح نقل کرتا ہے

جبکہ امام ابن معین کےدوسرے شاگرد جن میں

امام محمد بن عباس الدوری

امام ابو القاسم المحرز

وغیرہ امام یحییٰ بن معین سے امام ابی حنیفہ کی توثیق ہی پیش کرتے ہیں

خلاصہ :

امام ابی حنیفہ و ابی یوسف اور دیگر احناف میں امام یحییٰ بن معین سے لا یکتب جیسی جروحات بیان کرنے میں ابن ابی مریم منفرد ہے

اور دلائل سے ثابت ہے کہ یہ متعصب تھا

اور ابن معین کا دوسرا شاگرد محمد بن عثمان بن ابی شیبہ جو امام یحییٰ بن معین سے ابی حنیفہ کے بارے میں یہ کلمات بیان کرتے ہیں کہ ابی حنیفہ ضعیف فی حدیث

یہ بھی مردود ہے کیونکہ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ خود ضعیف ہے جمہور کے نزدیک

(ابو جعفر محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کی تضعیف پر مدلل پوسٹ بنا چکا ہوں )

توثابت ہو زبیری زئی نے جو امام ابی یوسف و امام اعظم کی امام یحییٰ بن معین کی طرف سے تعدیل و توثیق کو جرح پھر تعدیل سے تضاد بنا کر ساقط کرنے والی پھکی بنانے میں سنگھین غلطی کی ہے

یا تو یہ رجال کی معرفت اور اصول اور محدثین کی تصریح سے جاہل تھا

یا احناف کے بغض میں اتنا اندھا ہو گیا تھا کہ اسکی ساری تحقیق اسکے بغض کے سبب مٹی میں مل گئی

میرے اس مضمون پر امام یحییٰ بن معین کی طرف سے امام ابی یوسف و ابی حنیفہ پر توثیق اور جروحات پر اس مضمون کا رد زبیر ی یا اثری کا شاگرد لکھ سکتا ہے تو لکھے کیونکہ زبیری تو مر گیا ہے لیکن کوئی اصولا رد لکھ سکتا ہے تو ہمیں انتظار رہے گا

اور ان دلائل کی روشنی میں کوئی حق قبول کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو ہم کو خوشی ہوگی

تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی