امام احمد بن حنبل کی خود پسندی

امام احمد بن حنبل ائمہ اربعہ میں جنکا شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ قیاس و اجتیہاد سے جتناچڑتے تھے بلکہ اپنے سے پہلے دور کے گزرے مجتہدین کو امام احمد جس طرح لیس بشئ سمجھتے تھے اسکے باوجود امام احمد بن حنبل کا ائمہ اربعہ میں شامل ہوجانا ایک معجزہ کے سوا کچھ نہیں

اگر امام احمد کا اپنا منہج اور تصریحات پڑھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلے گزرے بزرگوں کے بارے بالکل بھی حسن ظن کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے علاوہ سب کو قرآن و حدیث کے خلاف رائے دینے والا سمجھتے اور فقہ کو ایک فتنہ کے سوا کچھ نہ سمجھتے تھے اورامام شافعی سے ملنے کے بعد بھی فقہ کے قائل ہوئے بھی تو پھر فقط امام شافعی کی ذات تک محدود رہے

اب امام احمد بن حنبل سے کچھ تصریحات پیش کرتے ہیں :

امام ابن عبدالبر اپنی مشہور تصنیف جامع بیان العلم میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :

حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن خالد، ثنا يوسف بن يعقوب النجيرمي بالبصرة ثنا العباس بن الفضل قال: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت أحمد بن حنبل يقول: «رأي الأوزاعي، ورأي مالك، ورأي سفيان كله رأي، وهو عندي سواء وإنما الحجة في الآثار»

امام سلمہ بن شبیب کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا وہ فرماتے ہیں :

اوزاعی کی رائے ، مالک کی رائے اورسفیان الثوری کی رائے ان سب کی صرف رائے ہی ہے (اس سے زیادہ کچھ نہیں )لیکن میرے نزدیک جو حجت ہے وہ اثار (صحابہ ) ہیں

(جامع بیان العلم ، ابن عبدالبر ، برقم: 2107، الناشر: دار ابن الجوزي، وسند حسن)

یعنی امام احمد امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری اور امام مالک (جو خود ائمہ اربعہ میں شامل ہیں ) انکے اجتیہاد کو فقط ایک رائے سے زیادہ کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے

کیا امام احمد خود بھی امام سفیان ثوری کے درجے کے محدث اور مجتہد تھے ؟

اسکا جواب بالکل نفی ہی ہے لیکن امام احمد ان لوگوں کو اپنے سامنے کچھ نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں

میرے نزدیک جو حجت ہے وہ فقط اثار صحابہ ہے جب آپکے نزدیک اثار صحابہ حجت ہے تو امام احمد اپنے سواء دوسروں کے لیے اس حسن ظن کے قائل کیوں نہ تھے کہ ان مجتہدین کی بھی رائے کسی نہ کسی دلیل پر معین ہوتی ہے

اسی طرح امام خطیب بغدادی اپنی سند لا باس بہ سے ایک اور روایت لاتے ہیں :

أخبرنا الحسن بن الحسن بن المنذر القاضي والحسن بن أبي بكر البزاز قالا: أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي سمعت إبراهيم بن إسحاق الحربي قال:

سمعت أحمد بن حنبل- وسئل عن مالك- فقال: حديث صحيح، ورأي ضعيف.

وسئل عن الأوزاعي فقال: حديث ضعيف، ورأي ضعيف، وسئل عن أبي حنيفة فقال: لا رأي ولا حديث. وسئل عن الشافعي فقال: حديث صحيح، ورأي صحيح.

امام اسحاق حربی کہتے ہیں میں نے امام احمد کو سنا ان سے سوال ہوا امام مالک کے بارے

تو کہا اسکی رائے (قیاس ، اجتیہاد ) ضعیف ہے اور اسکی احادیث صحیح ہوتی ہیں

ان سے پھر سوال ہوا امام اوزاعی کے بارے

تو انہوں نے کہا اسکی رائے (اجتیہاد و قیاس ) بھی ضعیف ہے اور اسکی بیان کردہ احادیث بھی ضعیف ہیں

پھر ان سے سوال ہوا امام ابو حنیفہ کے بارے

تو انہوں نے کہا ان سے حدیث بیان نہ کی جائے اور انکی رائے بھی بیان نہیں کرنا چاہیے

اور پھر انکے بارے سوال ہوا امام شافعی کے بارے تو انہوں نے کہا اسکی رائے قیاس بھی صحیح ہے اور اسکی بیان کردہ روایت بھی صحیح ہوتی ہے

(تاریخ بغداد ، برقم : 122)

یعنی امام احمد کے موقف میں یہاں تضاد واضح ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ انکے نزدیک کسی بھی مجتہد جیسا کہ سفیان ثوری ، مالک ، اوزاعی ، انکی رائے فقط رائے قیاس ہے جو کہ حجت نہیں اور یہ ضعیف ہے

لیکن امام شافعی کی رائے انکے نزدیک صحیح ہے باوجود قیاس کے

بلکہ امام احمد امام شافعی کی خوشامد میں اتنا غلو کر گئے کہ مجتہدین کے اجتیہاد کو قیاس کہہ کر اڑا دیتے اور امام شافعی کی رائے اور قیاس کو فقہ کا نام دیتے تھے

جیسا کہ امام احمد جب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری گردنیں احناف کے ہاتھوں میں تھی یعنی ہم جیسے اصحاب الحدیث جنکو اجتیہاد کے اصول و قوائد نہ آتے تھے اور ہمارے فیصلے احناف کے ہاتھوں میں ہوتے تھے (جسکی وجہ سے ہم جیسے اصحاب الحدیث کو ابو حنیفہ اور انکے اصحاب کی مقبولیت کی وجہ سے ان سے حسد و بغض ہے )

اسی موقف کو بیان کرتے ہوئے امام احمد امام شافعی کی رائے و قیاس کو فقہ کا نام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ امام ابن ابی حاتم اپنی سند صحیح سے روایت بیان کرتے ہیں :

أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَسَّانٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قَالَ:

«كَانَتْ أَقْفِيَتُنَا أَصْحَابَ الْحَدِيثِ، فِي أَيْدِي أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ مَا تُنْزَعُ، حَتَّى رَأَيْنَا الشَّافِعِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ النَّاسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَفِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَانَ يَكْفِيهِ قَلِيلُ الطَّلَبِ فِي الْحَدِيثِ»

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں :

ہمارے اصحاب الحدیث کے گردن امام ابو حنیفہ کے اصحاب کے ہاتھوں میں تھی یہاں تک کہ ہم نے امام شافعی کو دیکھا (پایا) جوکہ لوگوں میں زیادہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے والے تھے.. انکو حدیث میں قلیل طلب کفایت نہیں کرتی تھی

(آداب الشافعي ومناقبه، ص ۴۲ ، وسند صحیح )

یہاں امام احمد کے دہرے معیار کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جہاں انکے نزدیک

ابو حنیفہ

مالک

اوزاعی

سفیان ثوری

جیسے مجتہدین کی تو رائے ہے ہی کچھ نہیں بلکہ ضعیف ہے

لیکن امام شافعی کی رائے امام احمد کے نزدیک فقاہت ہے

اب امام احمد بن حنبل کے اس دہرے معیارپر انکے دوست اور حنفی ناقد امام یحییٰ بن معین الحنفی نے پھر امام احمد کے مقابلے میں امام شافعی پر ہاتھ صاف کیا اور بڑے زور سے ہاتھ صاف کیا

امام احمد کے دہرے معیار پر امام ابن معین کا امام احمد کو شرم دلانا ۔۔۔

أخبرنا أبو طالب عمر بن إبراهيم، قال: حدثنا محمد بن خلف بن جيان الخلال، قال: حدثني عمر بن الحسن، عن أبي القاسم بن منيع، قال: حدثني صالح بن أحمد بن حنبل، قال: مشى أبي مع بغلة الشافعي، فبعث إليه يحيى بن معين، فقال له: يا أبا عبد الله، أما رضيت إلا أن تمشي مع بغلته؟ فقال: يا أبا زكريا لو مشيت من الجانب الآخر كان أنفع لك.

(تاریخ بغداد ، سند صحیح )

اس واقعے کو امام القاضی عیاض مالکی نے بھی صالح بن احمد سے ان الفاظ سے نقل کیا ہے

وقال ابن معين لصالح بن أحمد ابن حنبل: أما يستحي أبوك رأيته مع الشافعي، والشافعي راكب وهو راجل، ورأيته قد أخذ بركابه. قال صالح فقلت لأبي فقال لي: قل له إن أردت أن تتفقه،

(الكتاب: ترتيب المدارك وتقريب المسالك ، المؤلف: أبو الفضل القاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى: 544هـ)

ایک مرتبہ یحییٰ ابن معین نے احمد بن حنبل کے صاحبزادے صال بن احمد سے کہا کہ آپ کے والد کو شرم نہیں آتی ہے؟

میں نے اُن کو شافعی کے ساتھ اِس حال میں دیکھا ہے کہ شافعی سواری پر چل رہے ہیں اور آپ کے والد رکاب تھامے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔ صالح بن احمد نے یہ بات اپنے والد احمد بن حنبل سے بیان کی تو اُنہوں نے کہا کہ اُن سے کہہ دو کہ اگر آپ ”فقیہ” بننا چاہتے ہیں تو شافعی کی سواری کی دوسری رکاب کو آپ تھام لیں

یہاں امام احمد کو شرم دلانے کی کوشش کی ہے امام ابن معین نے کہ آپ امام ابو حنیفہ اور دوسروں کی رائے کی ٹکے جتنی اہمیت نہیں دیتے اور شافعی کے اونٹ کی رکاب پکڑ کر پھر رہے ہو شرم کرو

جب امام احمد بن حنبل نے امام ابن معین کی فقاہت کا انکار کرتے ہوئے انکو طعنہ دیا کہ آپ امام شافعی کی طرف جب تک نہیں آئیں گے تو فقیہ نہیں بن سکتے

اسکے جواب میں امام ابن معین نے جو امام شافعی کی رائے جو اپنا موقف پیش کیا وہ بھی پھر پڑھنے والا تھا

جیسا کہ امام ابن الجنید امام ابن معین سے بیان کرتے ہیں :

قلت ليحيى بن معين: ترى أن ينظر الرجل في شيء من الرأي؟ فقال: «أي رأي؟» ، قلت: رأي الشافعي وأبي حنيفة، فقال: «ما أرى لمسلم أن ينظر في رأي الشافعي، ينظر في رأي أبي حنيفة أحب إلي من أن ينظر في رأي الشافعي» .

ابن جنید کہتے ہیں میں نے ابن معین سے کہا اس شخص کے بارے آپ کیا کہتے ہیں جو رائے کو دیکھے ۔

ابن معین نے پوچھا کس کی رائے کو دیکھے ؟

میں نے کہا امام شافعی کی رائے یا امام ابو حنیفہ کی رائے

تو امام ابن معین نے کہا کہ میرے مطابق مسلمان کے لیے شافعی کی رائے میں کچھ بھی نہیں ہے

البتہ امام ابو حنیفہ کی رائے کو جاننا میرے نزدیک شافعی کی رائے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے

(سوالات الجنید، برقم: ۹۲)

بلکہ جس طرح امام احمد امام ابو حںیفہ کی حدیث کو فقط قیاس کی وجہ سے لینے کے لیےتیار نہیں تھے بلکل ایسا ہی امام ابن معین باوجود امام شافعی کو صدوق و ثقہ ماننے کی انکی روایت رد کرتے تھے اور بلکہ امام شافعی کی حدیث کو پسند ہی نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ امام ابو حنیفہ و صاحبین سے اختلاف کرتے تھے شدید

جیسا کہ امام ابن عبدالبر نے اپنی سند صحیح سے بیان کیا ہے جامع بیان العلم میں :

وذكر محمد بن الحسين الأزدي الحافظ الموصلي في الأخبار التي في آخر كتابه في الضعفاء:

وقيل ليحيى بن معين يا أبا زكريا، أبو حنيفة كان يصدق في الحديث؟ قال: نعم صدوق، قيل له: والشافعي كان يكذب؟ قال: ما أحب حديثه ولا ذكره، قال: وقيل ليحيى بن معين: أيما أحب إليك أبو حنيفة أو الشافعي أو أبو يوسف القاضي؟ فقال: أما الشافعي فلا أحب حديثه، وأما أبو حنيفة فقد حدث عنه قوم صالحون وأبو يوسف لم يكن من أهل الكذب، كان صدوقا ولكن لست أرى حديثه يجزئ

یحیی بن معین سے کہا گیا اے ابو زکریہ ابو حںیفہ کیا حدیث میں سچے ہیں ؟ تو ابن معین نے فرمایا جی ہاں (ابو حنیفہ)صدوق ہیں

اور پھر کہا گیا کیا شافعی جھوٹ بولتے ہیں ؟

تو ابن معین نے کہا مجھے اس (شافعی) کی نہ ہی حدیث (بیان کرنا) پسند ہے اور نہ ہی اسکا ذکر میرے سامنے کیا جائے

پھر امام ابن معین سے کہا گیا کہ آپکے نزدیک امام ابو حنیفہ محبوب ہیں ، امام شافعی یا امام ابو حنیفہ ؟

تو ابن معین نے فرمایا کہ مجھے امام شافعی کی حدیث (بیان کردہ) پسند ہی نہیں

اور امام ابو حنیفہ ان سے تو صالح لوگوں کی جماعت نے حدیث بیان کی ہے

اور امام ابو یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے بالکل نہیں اور وہ صدوق ہیں

اسکو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر خود بھی حیران ہوئے امام ابن معین کے اس موقف پر کہ امام شافعی کو حدیث میں امام ابو حنیفہ کے مقابل بھی کچھ نہیں سمجھتے تھے

جس پر امام ابن عبدالبر کہتے ہیں :

قال أبوعمر: لم يتابع يحيى بن معين أحد في قوله في الشافعي

اس موقف میں ابن معین کی متابعت کسی نے بھی نہیں کی ہے جو قول انہوں نے شافعی کے بارے بیان کیا

وقوله في حديث أبي يوسف وحديث الشافعي أحسن من أحاديث أبي حنيفة،

اور(دوسروں کے ) اقوال میں یہ ہے کہ ابو یوسف اور امام شافعی کی احادیث امام ابو حنیفہ کے بانسبت زیادہ اچھی ہیں

اس سب اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدلبر کہتے ہیں :

ذكره الأزدي نا محمد بن حرب، سمعت علي بن المديني، فذكره من أوله إلى آخره حرفا بحرف

اسکو الازدی نے محمد بن حرب سے اور انہوں نے علی بن مدینی سے سنا جسکو ہم نے شروع سے اول تک حرف بحرف نقل کیا ہے

(جامع بیان العلم ، برقم : ۲۱۱۴)

یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کو امام ذھبی نے المغنی فی ضعفاء میں درج کرتے ہوئے لکھنا پڑا

محمد بن ادریس (الشافعی ) ثقہ امام

قال ابن الشرقی : کان ابن معین و ابو عبیدہ سیئا الرائ فیہ

امام شافعی جو ثقہ امام ہیں لیکن امام ابن شرقی کہتے ہیں کہ امام ابن معین اور ابو عبیدہ انکے بارے میں بری رائے رکھتے تھے

(المغنی فی الضعفاء ، برقم :۶۵۷۱)

لیکن امام ذھبی سے بھی ایک تسامح ہوا کہ امام شافعی پر امام ابن معین نے جو امام احمد کے بدلے میں کلام کیا تھا

اسکی بنیاد پر امام ذھبی فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین غالی حنفی تھے

جبکہ امام ابن معین نے امام احمد کی زبان میں ہی امام شافعی پر کلام کیا تھا

ان چند مختصر دلائل کو دیکھا جائے تو امام احمد جو کہ خود پسندی میں اتنے آگے تھے کہ اپنے موقف اور دلیل کے سامنے مجتہدین کے کلام کو لیس بشئ سمجھتے تھے

یہی وجہ ہے کہ امام ابن عبدالبر نے اپنی مشہور تصنیف الانتقاء میں امام احمد کو بالکل مجتہدین میں شامل نہیں کیا

بلکہ امام ابن عبدالبر امام شافعی کے ایک شاگردوں میں امام احمد کو شامل کیا ہے

اور انکے بارے کہتے ہیں :

وكان محله من العلم والحديث ما لا خفاء به وكان إمام الناس في الحديث وكان ورعا خيرا فاضلا عابدا صليبا في السنة غليظا على أهل البدع وكان من أعلم الناس بحديث الرسول صلى الله عليه وسلم وله اختيار في الفقه على مذهب أهل الحديث

کہ یہ علم و حدیث مرتبہ رکھتے تھے یہ لوگوں کے امام تھے حدیث میں ، یہ خیر والے عابد اور فاضل تھے اور سنت پر چلنے والے اور اہل بدعت پر تشدید کرتے ،

اور یہ لوگوں میں علم حدیث رسول رکھنے والے تھے اور یہ فقہ میں اپنی مرضی کے طابق چلتے جیسا کہ اہل حدیث کا مذہب ہے

(الانتقاء)

یعنی انکا کوئی منہج یا اصول مدون نہیں تھا بس جوقول مل جاتا اسی پر عمل کر لیتے کبھی اسی لیے احمد بن حنبل کی فقہ میں انکے اقوال میں لا تعداد تکرار ہے اکثر مقامات پر یہ اپنا رد خود ہی کر لیتے تھے

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی