أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِيۡنَ‌ۚ‏ ۞

ترجمہ:

اور جب تم کسی کو پکڑتے ہو تو سخت جبر سے پکڑتے ہو۔

کسی کو تادیب اور سرزنش کے لیے زیادہ سزا نہ دی جائے اور دس ڈنڈیوں سے زیادہ نہ مارا جائے 

اس کے بعد فرمایا اور جب تم کسی کو پکڑتے ہو تو سخت جبر سے پکڑتے ہو۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو 

(الشعراء ١٣١-٠٣١)

یعنی جب تم کسی کو گرفتار کرتے ہو تو اس کو سزا دینے کے لیے کوڑے مارتے ہو یا تلوار سے قتل کرتے ہو اور جس طرح کسی ظالم اور جابر شخص کے دل میں کوئی نرمی ہوتی ہے نہ ترس ہوتا ہے اسی طرح تمہارا معاملہ ہوتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کو ادب سکھا نے کے لیے اس کو معمولی سرزنش کرے تو یہ درست ہے یا کسی ظالم سے مظلوم کا بدلہ لینے کے لیے بہ قدر ظلم اس کو سزا دے تو یہ جائز ہے اور قصاص اور بدلہ لینا بھی جائز ہے لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے ہم نے دیکھا ہے کہ ماں باپ اور استاد بچوں کو سزا دینے کے لیے ان کو ربڑ کے پائپوں اور ڈنڈوں سے بہت سخت مارتے ہیں اور ان کے منہ پر طمانچہ یا تھپڑ مار تے ہیں اسلم میں منہ پر طما نچہ یا تھپڑ مارنا جائز نہیں ہے او کسی بچے یا بڑے کو سز اد ینے کے لیے دس ڈنڈیوں سے زیادہ مارنا جائز نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث ١٤٥٥‘ مسد احمد ج ٢ ص ٨١١)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص چہرے پر نہ مارے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث ٧١١٢‘ سنن ابود ائود رقم الحدیث ٤٦٥٢‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث ٢٨٤٨‘ مسند احمد ج ٣ ص ٣٢٣ )

حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے آپ نے فرمایا جو وہ خود کھاتا ہے وہی اس کو کھلائے جو وہ خود پہنتا ہے وہی اس کو پہنائے چہرے پر مارے نہ اس کو بد نما کرے اور اس کو صرف گھر میں چھوڑے۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٠٥٨١‘ مسد احمد ج ٤ ص ٧٤٤ )

اسی طرح حددود کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جتنی سزائیں دی ہیں اس سے زیادہ کسی کو تادیب یا سر زنش کرنے کے لیے سزانہ دی جائے۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی بیوں کے اوپر لاٹھی نہ اٹھائو اور ان کے معاملات میں اللہ سے ڈرو (المعجم الغیر رقم الحدیث ٤١١ ’ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٦٠١)

اسد بن وداعہ بیان کرتے ہیں حضرت جزی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور عرض کیا ‘ یارسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری بیوی میری نافرمانی کرتی ہے میں اس کو کسی چیز سے سزا دوں ؟ آپ نے فرمایا تم اس کو معاف کردو ‘ جب اس دوسری یا تیسری بار پوچھا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس کو سزا دو تو اس کو بہ قدر قصور سزا دو اور اس کے چہرے پر مار نے سے اجتناب کرو۔ (لمعجم الکبیر رقم الحدیث ٠٣١٢‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٠١)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی شخص کو دس کوڑوں (درخت کی ٹہنیوں یا ڈنڈیوں) سے زیادہ نہ مارا جائے۔ ماسوا اللہ تعالیٰ کی حدود کے۔(صحیح بخاری رقم الحدیث ٨٤٨٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٨٠٧١‘ سنن ابود ائود رقم الحدیث ٦٩٤٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٢٦٤١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٢٦٠١‘ سنن دارمی رقم الحدیث ٢٧١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٠٥٨١‘ مسد احمد ج ٤ ص ٧٤٤ )

ربیع بن سبرہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں بچے کو نماز سکھائو اور دس سال کی عمر میں اس کو مار کر نماز پڑھا ئو (سنن الترمذی رقم الحدیث :407 سنن ابو دائود رقم الحدیث :494 مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص 347 مسند احمد ج 3 ص 404 المستدرک ج ١ ص 201 سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص 14)

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک قوم کو (زندہ) آگ میں جلا دیا حضرت ابن عباس (رض) کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا اگر میں اس موقع پر ہوتا تو ان لوگوں کو آگ میں نہ جلاتا کیونکہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو ‘ اور میں ان کو قتل کردیا کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اس کو قتل کردو (صحیح البخاری رقم الحدیث :3017 سنن الترمذی رقم الحدیث :1458 سنن ابودائود رقم الحدیث :4351 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2535) 

حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک غلام (نوکر) کو مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی ! اے ابو مسعود ! یہ جالو ! کہ جتنا تم اس پر قادر ہو اس سے کہیں زیادہ اللہ کو تم پر قدرت ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے میں عرض کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اللہ کی رضا کے لیے آ زاد ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو دوزخ کی آگ جلاتی۔(سنن ابو دائود رقم الحدیث :5159 سنن الترمذی رقم الحدیث :1948 مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :7959 مسند احمد ج ٤ ص 129 المعجم الکبیرج 17 رقم الحدیث 683 حلیتہ اولیاء ج ٤ ص 218 سنن کبری للبیہقی ج 8 ص 10 شرح السنتہ رقم الحدیث :2410) 

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں خادم کو کتنی بار معاف کروں ؟ آپ نے فرمایا ہر روز ستر بار (سنن ابودائود رقم الحدیث :5164 مسند احمد ج ٢ ص 90 مسند ابو یعلی رقم الحدیث :5760 سنن کبریٰ للبیہقی ج 8 ص 10)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے خادم کو مارے پس وہ اللہ کو یاد کرے تو تم اس سے پانے ہاتھ اٹھا لو۔(سنن الترمذی رقم الحدیث 1950، شرح السنتہ رقم الحدیث :2413 مجمع الزوائد رقم الحدیث :10694)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سخی کے جرم سے در گذر کروں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ سخی کی لغزش سے اپنا ہاتھ اٹھا لیتا ہے ((سنن المعجم الاوسط،مجمع الزوائد )

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معزز اور باوقا لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردو (مجمع الزوائد)

علامہ محمد بن عبدالواحد ‘ ابن ھمام متوفی ١٢٨ ھ لکھتے ہیں :

تعزیر دینے پر صحابہ کا جماع ہے ‘ تعزیر کا معنی ہے برے کاموں میں ملامت اور سرزنش کرنا تاکہ کوئی شخص اس برائی کا عدی اور خوگر نہ ہوجائے اور پہلی بار سے بڑھ کر برائی اور بےحیائی کے کام نہ کرنے لگے اس لیے برے کام پر سزنش کرنا واجب ہے علامہ تمرتاشی نے ذکر کیا ہے کہ علامہ سرخسی نے کہا ہے کہ تعزیر میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے بلکہ یہ سزا قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے کیونکہ اس سے مقصد زجرو تو بیخ اور سرزنش کرنا ہے اور لوگوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں بعض لوگ صرف ڈانٹ ڈپٹ سن کر اصلاح کرلیتے ہیں اور بعض لوگ ایک آ دھ تھپڑ یا ایک آ دھ ڈنڈی سے سدھر جاتے ہیں اور بعض لوگوں کو قید خان میں ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

الشافی میں مذککور ہے کہ تعزیز کے کئی مراتب ہیں امراء اور اشراف کو صرف قاضی کے پاس لے جانے اور مقدمہ کرنے کی دھمکی کا فی ہوتی ہے اوسط درجہ کے لوگوں کو قید میں ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نچلے درجے لوگوں کو قید اور مار دنوں کی ضرورت پڑتی ہے ا ام ابویوسف سے منقول ہے کہ سلطان مالی جرمانہ بھی کرسکتا ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے اور خلاصہ میں مذکرور ہے کہ اگر قاضی یا والی مناسب سمجھتے تو مالی جرمانہ کرسکتا ہے جو آ دمی جماعت میں حاضر نہیں ہوتا اس پر مشائخ نے مالی جرمانہ کرنے کا امام ابو یوسف کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔(فتح القدیر ج ٥ ص 329-330 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

قید کرنے اور مالی جرمانے کی سزائیں 

علامہ علاء الدین ابوالحسن علی بن خلیل الطرابلسی الحنفی لکھتے ہیں 

امام ابو یوسف کے مذہب میں مالی جرمانے کی سز دینا جائز ہے امام مالک کا بھی یہی قول ہے اور جن علماء نے یہ کہا کہ مالی سزا منسوخ ہوگئی ہے ان کا قول غلط ہے 

تعزیز کی کم از کم سزا تین ڈنڈیا ہیں اور زیادہ سے زیادہ انتالیس ڈنڈیاں یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہے اور امام شافعی کے نزدیک تعزیر بہر حال چالیس ڈنڈیوں سے کم ہو ‘ اور امام احمد بن حنبل نے ظاہر حدیث پر عمل کیا ہے اور کہا کہ تعزیر میں تعزیر میں دس ڈنڈیوں سے زیادہ نہ ماری جائیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) نے کسی کو قید کیا ہے یا نہیں اس میں آ ثار مختلف ہیں۔ بعض نے ذکر کیا ہے ان کا کوئی قید خانہ نہیں تھا او نہ انہوں نے کسی کو قید کیا ہے اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو قتل کے الزام میں قید کرلیا تھا اس حدیث کو امام عبدالرزاق او امام نسائی نے روایت کیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو ایک الزم میں دن کے کچھ وقت قید میں رکھا پھر رہا کردیا اس سے ثابت ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قید کیا ہے ہرچند کہ اس کے لیے کوئی قید خان ہ بنا ہوا نہیں تھا۔ حضرت عمر (رض) نے حطییہ نام کے ایک آ دمی کو ہجو کرنے کی بنا پر قید خا نے میں ال دیا تھا او صابی بن الحارث نام کا ایک شخص بنو تمیم کے چوروں میں سے تھا اس کو حضرت عثمان (رض) نے قید خانہ میں ڈال دیا تھا جو وہیں مرگیا اور حضرت علی (رض) نے کوفہ میں قید خان بنایا اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے بھی قید خانہ بنایا تھا ( )

اگر بروقت حکام سے رابطہ نہ ہو سکے تو مسلمان ازخود ظلم اور برائی کو مٹائے۔

نیز علامہ کمال الدین ابن ھمام لکھتے ہیں 

علامہ تمر تاشی نے لکھا ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہو کر کسی جرم میں تعزیر لگائے ‘ امام ابو جعفر ھندوانی سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص کسی مرد کو عورت کے ساتھ دیکھے تو کیا اس کے لیے اس کو قتل کرنا جائز ہے اور اگر عورت خوشی سے اس سے زنا کر ارہی ہو تو اس کو قتل کرنا بھی جائز ہے اور اس میں یہ تصریح ہے کہ ہر انسان کو تعزیر جاری کرنے کا اختیار ہے خواہ و محتسب ( عامل یا حا کم) نہ ہو منتقی میں اس کی تصریح ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برائی کو اپنے ہاتھ سے مٹانے کے باب سے ہے اور شارع (علیہ السلام) نے ہر شخص کو اس کا اختیار دیا ہے حدیث میں ہے 

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جس شخص نے کسی برائی کو دیکھا وہ اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے تو پھر زبان سے اس کا ردکرے اور اگر وہ اس بھی طاقت نہ رکھے تو پھر دل سے اس کو برا جانے اور یہ سب سے کمزور درجہ کا ایمان ہے۔(صحیح مسلم، ایمان :78 الرقم بلاتکرار 49 الرقم المسلسل :175 سنن ابو دائود رقم الحدیث :1140 سنن الرتمذی رقم الحدیث :2172، سنن النسائی رقم الحدیث :5008 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4013 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :306 مسند ابویعلی رقم الحدیث :1009، مسند احمد ج ٣ ص 20 سنن کبری ٰ للبیہقی ج 10 ص 90)

البتہ حدود کو حکام کے سوا اور کوئی جاری نہیں کرسکتا۔ اسی طرح وہ تعزیر جو کسی بندے کے حق کی وجہ سے واجب ہو ‘ مثلا ً قف (زنا کی تہمت) وغیرہ کیونکہ اس کا پہلے حاکم کے سامنے دعویٰ کیا جائے گا پھر وہ فیصلہ کرے گا ہاں اگر دونوں فریق کسی شخص کو حاکم بنالیں تو پھر اس کو تعزیر لگا نے کا اختیار ہوگا۔(فتح القدیر ج ٥ ص 300 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

علامہ ابن ھمام نے برائی کو مٹانے کے وجوب کے سلسلہ میں زنا کی مثال دی ہے میری رائے میں یہ مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے اور اس حدیث کا تعلق اس برائی سے ہے جو علی الا علان کی جارہی ہو نیز اگر کوئی چھا پا مار کر زانیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے تو عادۃً ایسا نہیں ہوتا کہ وہ چھا پا مار نے والوں سے یہ کہیں کہ نہیں ہم ضرور زنا جاری رکھیں گے اور منع کرنے بلکہ قتل کے بغیر باز نہ آئیں بلکہ قتل کے بغیر باز نہ آئیں بلکہ جب ان کو عین موقع پر پکڑ لیا جائے تو وہ خو فزدہ ہوجاتے ہیں اور ان پر مجرمانہ خاموشی چھا جاتی ہے اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کو رسوائی سے بچایا جائے اور ان کی اس برائی اور جرم میں پردہ رکھ لی جائے البتہ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کسی مجلس میں بیٹھ کر لوگ کھلے عام شراب پی رہے ہوں اور جوا کھیل رہے ہوں یا بر سرعام سودی کاروبار کررہے ہوں ایسا سود جو بالکل کھلا ہوا ہو اور اس میں کوئی اشتباہ نہ ہو آج کل بینکوں میں جو سودی کاروبار ہوتا ہے وہ P L S کی تاویل سے ہوتا ہے جو باطن میں تو سود ہے لیکن اس کا ظاہر سود نہیں ہے مضاربت ہے یا کوئی شخض کھلم کھلا کسی پر ظلم کر رہا ہو یا کسی کو قتل کر رہا ہو تو جو مسلمان ان بر ائیوں میں سے کسی برائی کو دیکھے اس پر اس برائی کو حسب مقدور زائل کرنا اور مٹانا واجب ہے۔

ملکی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں ہے اس لیے جب کہیں کھلے عام برائی یا ظلم ہو رہا ہو تو دیکھنے والے کو چاہیے کہ فوراً ایمرجنسی نمبروں پر ٹیلی فون کر کے متعلقہ محکمہ کو مطلع کرے ‘ پھر اگر وہ دیکھے کہ پولیس بر وقت نہیں پہنچی اور وہ اس ظلم اور برائی کی اپنی طاقت سے مٹا سکتا ہے تو پھر وہ اس برائی اور ظلم کو مٹائے اور اگر وہ اس مہم کے دوران مارا گیا تو وہ شہید ہوگا۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی فرضیت 

علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ٠٧٣ ھ نے بھی حضرت ابو سعید خدری (رض) کی اس حدیث میں مفصل لکھا ہے قرآن مجید میں ہے۔

(المائدہ 78-79) بنو اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا ان پر دائود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے نہیں روکتے تھے جن کو وہ کرتے تھے وہ یقینا بہت برے کام کرتے تھے -(المائدہ ٨٧-٩٧)

ان آیات کا تقاضا یہ ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض ہے اور اس کے حسب ذیل مراتب ہیں 

پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اگر طاقت ہو تو برائی کو ہاتھ سے روکے اور اگر برائی کو ہاتھ سے روکنے میں اس کی جان کو خطر ہو تو زبان سے برائی کا انکار کرے اور اگر زبان سے برائی کو روکنے میں بھی جان کا خطرہ ہو تو دل سے اس برائی کا انکار کرے ‘ حضرت عبداللہ بن جریر بجلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جس قوم میں کثرت سے گناہ کیا جائے اور انکو گناہ سے روکا نہ جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب نا زل کرتا ہے ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنو اسرائیل پر جو پہلا نقصان داخل ہوا وہ یہ تھا کہ ایک شخص کسی شخص سے ملاقات کرکے کہتا اے شخض اللہ سے ڈرو اور اس کام کو چھوڑ دو کیونکہ یہ کام تمہارے لیے جائز نہیں ہے پھر اگلے دن جب اس سے ملتا تو اس کو منع نہ کرتا ‘ اس کے ساتھ کھا تا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ‘ جب انہوں نے اس طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ایک دور سے کے موافق کردیے اور حضرت دائود اور حضرت عیسیٰ کی زبانوں سے ان پر لعنت بھجی ‘ پھر فرمایا خدا کی قسم تم ضرور نیکی کا حکم دینا اور ابرائی سیروکنا اور ظلم کرنے والوں کے ہاتھ پکڑ لینا اور تم اس کو حق کی طرف موڑ دینا اور اس کو حق پر مبجور کرنا ‘ امام ابودائود نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص کسی کو برائی سے روکے تو پھر برے کام کرنے والے کے ساتھ بیٹھے نہ کھائے اور نہ پیے۔

ناگزیر حالات کے سوا نیکی کے حکم دینے اور برائی سے روکنے کو ترک نہ کیا جائے 

قرآن مجید میں ہے :

(المائدہ :105) اے ایمان والوں تم اپنی جانوں کی فکر کرو ‘ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

حضرت ابوبکر نے ایک خطبہ میں اس آیت کو تلاوت کر کے فرمایا تم اس آیت کا غلط مطلب لیتے ہو ‘ ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ کسی ظلم کرنے والے کو دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو قریب ہے اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب نازل فرمائے ‘ ابو امیہ شعبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے اس آیت کے متعلق پوچھا انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا تھا آپ نے فرمایا تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو حتیٰ کہ جب تم یہ دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جارہی ہے اور خواہش کی پیروی کی جارہی ہے دنیا کو ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رئے پر اترا رہا ہے اس وقت تم صرف اپنی جان کی فکر کرو اور عوام کو چھوڑ دو ‘ کیونکہ تمہارے بعد صبر کے ایام ہیں ان ایام میں صبر کرنا انگارے پکر نے کے مترادف ہے اس وقت میں ایک عمل کرنے والے کو پچاس عمل کرنے والوں کا اجر ملے گا۔

اگر برائی اور ظلم کو روکنا ناگزیر ہو تو مسلمان از خود کارروائی کریں 

یہ حدیث اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی المنکر کے دو حال ہیں ایک حال وہ ہے جس میں برائی کو بدلنا اور اس کو مٹانا ممکن ہو اس حال میں جس شخص کے لیے برائی کو اپنے ہاتھوں سے مٹانا ممکن ہو اس پر اس برائی مٹانا فرض ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ وہ برائی کو تلوار سے مٹائے مثلاً ایک شخص اس کو یا کسی اور شخص کو قتل کرنے کا قصد کرے یا اس کا مال لوٹنے کا قصد کرے یا سا کی بیوی سے زنا کرنے کا قصد کرے اور اس کو یقین ہو کہ زبانی منع کرنے سے باز نہیں آئے گا تب اس پر لازم ہے کہ اس کو قتل کردے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے تم میں سے جو شخص برائی دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور جو شخص برائی کررہا ہے اگر اس کو قتل کیے بغیر اس برائی کو مٹانا ممکن نہ ہو تو اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر اس کو یہ گمان ہو کہ اب اگر اس کو بغیر ہتھیار کے مارایا زبان سے منع کیا تو یہ باز آجائے گا لیکن بعد میں اتنی سزا سے باز نہیں آئے گا اور اس کو قتل کیے بغیر یہ برائی نہیں مٹ سکے گی تو پھر اس کو قتل کرنا لازم ہے۔

(کسی بھی شخص کے لیے قانونی طور پر از خود کارروائی کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ دیکھے کہ جتنی دیر میں وہ سرکاری حکام سے رابطہ کرے گا اتنی دیر میں کسی بےقصور کو ظلماً قتل کردیا جائے گا یا کسی گھر میں ڈاکا پڑجائے گا یا کسی شریف آدمی کی عزت لٹ جائے گی اور وہ مسلمان شخص اپنی قوت اس برائی یا ظلم کو روک سکتا ہو تو اس پر اس برائی کو مٹنانا اور اس ظلم کو روکنا شرعاً فرض ہے اور اگر اس مہم کے دوران اس کی جان چلی گئی تو شہید ہوگا (سعیدی غفرلہ )

ابن رستم نے امام محمد نقل کیا ہے کہ ایک آ دمی نے کسی کا سامان چھین لیا تو تمہارے لیے اس کو قتل کرنا جائز قتل کرنا جائز ہے حتیٰ کہ تم اس کا سامان چھڑالو او اس آ دمی کو واپس کردو اسی طرح امام ابوحنیفہ نے فرمایا جو چور مکانوں میں نقب لا رہ ہوں تمہارے لیے اس کو قتل کرنا جائز ہے اور جو آ دمی تمہارا دانت ٹوڑنا چاہتا ہو (مدافعت میں) تمہارا اس کو قتل کرنا جائز ہے بہ شرطی کہ تم ایسی جگہ پر ہو جہاں لوگ تمہاری مدد کو نہ پہنچیں اور ہم نے جو یہ ذکر کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا 

(الحجرات ٩) جو جماعت بغاوت کرے اس سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے امر کی طرف لوٹ آئے۔

اسی طرح حدیث میں ہے :” تم میں سے جو شخص کسی برائے کو دیکھے وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے مٹائے۔ “ اس لئے جب کوئی شخص کسی برائے کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹائے خواہ برائی کرنے والے کو قتل کرنا پڑے اور اگر وہ زبان سے منع کرنے سے باز آجائے تو اس کو زبان سے منع کرے، یہ حکم ہر اس برائی کے لئے ہے جو علیا لاعلان کی جا رہی ہو اور اس پر اصرار کیا جا رہا ہو، مثلاً کوئی شخصہ بھتہ اور جبری ٹیکسو صول کرے، اور جب ہاتھ سے برائی کو مٹانا اور زبان سے منع کرنا دونوں میں اس کی جان کو خرطہ ہو تو اس کے لئے سکوت جائز ہے او اس وقت اس پر لازم ہے کہ اس برائیے سے اور ان برائی کرنے والوں سے الگ ہوجائے۔

قرآن مجید میں ہے :

(المائدہ :105) تم اپنی جانوں کی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

حضرت ابن مسعود (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : جب تک تمہاری بات کو قبول کیا جائے تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور جب تمہاری بات کو قبول نہ کیا جائے تو پھر تم اپنی جان کی فکر کرو، اسی طرح حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیکی کا حکجم دیتے رہو اور برائی سیر وکتے رہو حتیٰ کہ جب تم یہ دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جا رہی ہے، واہشک یپ یروی کی جا رہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جا رہ ی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر اترا رہا ہے تو پھر تم اپنی جان کی فکر کرو اور لوگوں کی فکر کرنا چھوڑ دو ، اور جب لوگوں کا یہ حال ہو تو پھر آپ نے برائی پر ٹوکنے کو ترک کرنا مباح کردیا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے خود نیک ہونا ضروری نہیں ہے 

علامہ ابوبکر رازی فرماتے ہیں قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے اور جب بعض لوگ اس فرض کو ادا کرلیں تو پھر یہ باقیوں سے ساقط ہوجاتا ہے، اور اس فرض کی ادائیگی میں نیک اور بد کا کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص کسی ایک فرض کو ترک کر دے تو اس کی وجہ سے باقی فرائض اس سے ساقط نہیں ہوتے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص نماز نہ پڑھے تو اس سے روزہ اور دیگر عابدات کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی، اسی طرح جو شخص متام نیکیاں نہ کرے اور کسی برائے سے نہ رکے تو اس سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت ساقطن ہیں ہوتی، حضرت ابوہریرہ رضیا للہ عنہ باین کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صحابہ کی ایک جماعت حاضر ہوئی، انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ بائیے کہ اگر ہم تمام نیکیوں پر عمل کرلیں حتٰی کہ کوئی نیکی باقی نہ بچے مگر ہم نے اس پر عمل کرلیا ہو اور تمام برائیوں سے بچیں حتیٰ کہ کوئی برائی نہ بچے مگر ہم اس سے رک چکے ہوں تو کیا اس وقت ہمارے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا نیکیوں کا حکم دو ، خواہ تم نے تمام نیکیوں پر عمل نہ کیا ہو اور برائی سے روکو خواہ تم برائی سے نہ رکتے ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی کو باقی تمام فرائض کیا دائیگی کے مساوی قرار دیا ہے، جس طرح بعض واجبات میں تقصیر کے باوجود دیگر فرائض کا ادا کرنا ساقط نہیں ہوتا، اسی طرح بعض واجبات میں تقصیر کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ساقط نہیں ہوتا۔

ہتھیاروں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فتنہ کہنے کا بطلان 

علماء امت میں سے صرف ایک جاہل قوم نے یہ کہا ہے کہ باقی جماعت سے قتال نہ کیا جائے اور ہتھیاروں کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کیا جائے انہوں نے کہا جب امر بالمعروف اور نہی المنکر میں ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پڑے تو یہ فتنہ ہے حالانکہ قرآن مجید میں ہے 

جو جماعت بغاوت کرے اس سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے امر کی طرف لوٹ آئے۔

(الحجرات ٩)

ان لوگوں نے یہ کہا کہ سلطان کے ظلم اور جور پر انکار نہ کیا جائے البتہ سلطان کا غیر اگر برائی کرے تو اس کو قول سے منع کیا جائے اور بغیر ہتھیار کے ہاتھ سے منع کیا جائے یہ لوگ بدترین امت ہیں امام ابودائود نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے افضب جہاد یہ ہے کہ ظالم سلطان یا ظالم امیر کے سامنے کلمہ حق کہا جائے اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سید الشہداء حمز ہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص جس نے ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اس کو نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اور اس کی پاداش میں اس کو قتل کردیا گیا۔

کسی شخص سے محبت کی وجہ سے امر بالمعروف کو ترک نہ کیا جائے 

کسی شخص سے دوستی اور محبت کی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہیں کرنا چاہیے نہ کسی شخص کو نزدیک کی قدرو منزلت بڑھانے اور اس سے کئی فائدہ طلب کرنے کے لیے مداہنت (بےجا نرمی اور دنیاوی مفاد کے لیے نہی عن المنکر کو ترکی کرنا) کرنی چاہیے کیونکہ کسی شخص سے دوستی اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ساتھ خیر خواہی کی جائے اور اس کی خیر خواہی یہ ہے کہ اس کو آ خرت کی فلاح کی ہدایت دی جائے اور اس کو آس کو آ خرت کے عذ اب سے بچایا جائے اور کسی انسان کا سچا دوست وہی ہے جو اس کے لیے آ خرت کی بھالائی کی سعی کرے اور اگر وہ فرائض کی ادائیگی میں تقصیر کرہا ہو تو اسے ان فرائض کی ادائیگی کا حکم دے اور اگر وہ کسی برائی کا ارتکاب کررہا ہو تو اس کو برائی سے روکے۔

امر بالمعروف میں ملائمت کو اختیار کیا جائے 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نری اور ملائمت کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ مئو ثر ہو امام شافعی (رح) نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو تنہائی میں نصیحت کی اس کی خیر خواہی کی اور جس نے کسی شخص کے سامنے نصیحت کی اور ملامت کی اس نے اس کو شرمندہ اور رسوا کیا 

اگر کسی برائی کو اپنے ہاتھوں سے مٹائنے سے ملکی قواین کو اپنے ہاتھوں میں لینا لازم نہیں آتا تو اس برائی کو اپنے ہاتھوں سے مٹایا جائے ورنہ زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور اگر اس پر بھی قادری نہ ہو تو پھر اس برائی کو دل سے ناپسند کرے 

یہ بھی کہا گیا کہ حکام اور ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ وہ برائی کو اپنے ہاتھوں سے مٹائیں ‘ مثلا قات لکو قصاص میں قتل کریں اور چور کا ہاتھ کاٹیں ‘ زانی کو کوڑے لگا یا رجم کریں اسی طرح دیگر حدود الہیہ جاری کریں اور علماء پر لازم ہے کہ زبان سے برائی کی مذمت کریں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں اور عوام کو چاہیے کہ وہ ہر برائی کو دل سے برا جانیں لیکن صحیح یہ کہ جس شخص کے سامنے ظلم اور زیادتی ہو وہ اس کو حسب مقدور مٹانے کی کوشش کرے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے (احکام القرآ ج ٢ ص ٤٣-٠٣ ملخصا ‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ‘ ٠٠٤١ ھ )

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 130