أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَذٰ لِكَ خَيۡرٌ نُّزُلًا اَمۡ شَجَرَةُ الزَّقُّوۡمِ ۞

ترجمہ:

آیا یہ زیادہ اچھی مہمانی سے یا تھوہر کا درخت ؟

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیا یہ زیادہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا رخت ؟ بیشک ہم نے اس کو ظالموں کے لیے عذاب بنادیا بیشک وہ ایسا درخت ہے جو دوزخ کی جڑ سے نکلتا ہے اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں دوزخی ضرور اسی درخت سے کھائیں گے۔ سو اسی سے پیٹ بھریں گے پھر بیشک ان کے لیے (پیپ) ملا ہوا گرم پانی ہوگا پھر بیشک ان ضرور دوزخ کی طرف لوٹنا ہوگا بیشک انہوں نے اپنے آبائو اجداد کو گم راہ پایا سو وہ ان ہی کے نقش قدم پر بھگائے جاتے رہے اور ان سے پہلے بھی اکثر پہلے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں اور بیشک ہم ان میں عذاب سے ڈرانے والے بھیجے تھے سو آپ دیکھئے کہ جن کو ڈرایا گیا تھا ان کا کیسا انجام ہوا ماسوا اللہ کے بزگزیدہ بندوں کے (الصفت : ٧٤۔ ٦٢ )

شجرۃ الزقوم کی تحقیق

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے جنت میں احوال اور ان کے کھانے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمایا تھا اور ان آیات میں اہل دوزخ کے احوال اور ان کے کھانے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمارہا ہے ‘ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ آپ اہل مکہ کو ان کے اخروی انجام سے ڈرائیں تاکہ وہ اپنے کفر اور شرک سے باز آئیں۔

الصفت : ٦٢ میں فرمایا : آیا یہ زیادہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا درخت ؟

اس آیت میں نزل کا لفظ ہے ‘ نزل کا معنی ہے کسی چیز کا بلندی سے نیچے گرنا ‘ گھر آنے والے یعنی مہمان کو نازل کہا جاتا ہے اور مہمان کی ضیافت کے لیے جو کھانے پینے کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں ان کو نزل کہتے ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :

نزل من عند اللہ۔ (آل عمران : ١٩٨) یہ اللہ کی طرف سے مہمانی ہے

اما الذین امنوا وعملوالصلحت فلھم جنت الماوی ز نزلا بما کانوا یعملون (السجدہ : ١٩)

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو ان کی رہائش کے لیے باغات ہیں یہ ان کے نیک کاموں کی جزاء کی مہمانی ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٣٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

اور اس آیت میں شجرۃ الزقوم کا لفظ ہے اس کا معنی ہے تھوہر کا درخت ‘ یہ دوزخ میں سخت بد ذائقہ درخت ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر درخت زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیاوالوں پر گرادیا جائے تو ان کی زندگی فاسد ہوجائے گی تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا طعام ہی زقوم ہوگا۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٨٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٢٥‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٠٠‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٧٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٠٦٨‘ المستدرک ج ٢ ص ٢٩٤‘ البعث و النشور رقم الحدیث : ٥٤٣‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٤٤٠٨)

اس میں اختلاف ہے کہ شجرۃ الزقوم دنیا کے درختوں سے ہے یا نہیں اور اہل عرب اس کو پہچانتے تھے یا نہیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ یہ دنیا کا معروف درخت ہے یہ سخت کڑوا اور بد ذائقہ ہوتا ہے۔ اسکو توڑ نے سے اس میں سے زہر یلا دودھ نکلتا ہے جو اگر جسم پر الگ جائے تو وہاں پر ورم آجاتا ہے ‘ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دنیا میں معروف درخت نہیں ہے ‘ جب شجرۃ الزقوم کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش نے کہا ہم اس درخت کو نہیں پہچانتے ‘ ابنالزبعری نے کہا زقوم بربر والوں کی زبان میں مکھن اور کھجورکو کہتے ہیں ‘ ابو جہل لعنہ اللہ نے اپنی باندی سے کہا : میرے لیے مکھن اور کھجور لائو ‘ پھر اپنے اصحاب سے کہا لو اس کو کھائو ‘(سید نا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اس ڈراتے ہیں کہ یہ درخت دوزخ میں اگتا ہے حالانکہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے اس نے آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا جس چیز سے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرار رہے ہیں وہ تو دراصل مکھن اور کھجور ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 62