أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ نَادٰٮنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِيۡبُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم کو نوح نے پکارا ‘ (سودیکھو) ہم کتنی اچھی طرح پکار کا جواب دینے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم کو نوح نے پکارا (سود یکھو) ہم کتنی اچھی طرح پکار کا جواب دینے والے ہیں اور ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی اور ہم نے ان ہی کی اولاد کو باقی رہنے والا بنادیا اور ہم نے ان کا ذکر بعد والوں میں باقی رکھا سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزاد یتے ہیں بیشک وہ ہمارے ایمان والے بندوں میں سے ہیں پھر ہم نے دوسروں کو غرق کردیا (الصفت : ٨٢۔ ٧٥)

بعض انبیاء سابقین کے قصص

ان آیات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے الصفت : ٧١ میں فرمایا تھا : اور بیشک ان (مشرکین مکہ) سے پہلے ‘ اکثر پہلے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں ‘ نیز الصفت : ٧٣ میں فرمایا تھا ‘ سو آپ دیکھئے جن کو عذاب سے ڈرایا گیا تھا ‘ ان کا کیسا انجام ہوا ‘ تو اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ مشرکین مکہ سے پہلے وہ کون لوگ تھے جو گم راہ ہوچکے تھے اور ان پہلوں کو جو عذاب سے ڈرایا گیا تھا وہ ڈرنے والے کون کون تھے ‘ سو سب سے پہلی عذاب سے ڈرانیکے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا ‘ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھیجا ‘ پھر حضرت موسیٰ ‘ حضرت ہارون ‘ اور حضرت الیاس (علیہم السلام) کو بھیجا اور حضرت لوط اور حضرت یونس (علیہم السلام) کو بھیجا ‘ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء (علیہم السلام) کے قصص بیان فرمائے ‘ سورة ھود اور سورة انبیاء میں ان کا تفصیل سے ذکر گزر چکا ہے ‘ ہم ان آیات کی تفسیر میں ان انبیاء (علیہم السلام) کے ان مذکورہ واقعات کا اختصار اور اجمال کے ساتھ ذکر کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق و بہ الا ستعانۃ یلیق۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ

الصفت : ٧٥ میں ہے : اور ہم کو نوح نے پکارا ( سو دیکھو) ہم کتنی اچھی طرح پکار کا جواب دینے والے ہیں

اس کا معنی ہے حضرت نوح (علیہ السلام) نے ہم سے دعا کی سو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا ‘ یہ دعا اس وقت کی تھی جب وہ سالہا سال تبلیغ کرنے کے بعد اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تھے وہ دعا یہ تھی :

وقال نوح رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا انک ان تذر ھم یضلوا عبادک ولا یلدوآ الا فاجرا کفارا (نوح : ٢٧۔ ٢٦) ا اور نوح نے دعا کی اے میرے رب ! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے والا نہ چھوڑ بیشک اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گم راہ کریں گے اور یہ صرف بدکار کافروں کو ہی جنم دیں گے۔

دعائوں کے قبول ہونے کی شرائط

حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا دو وجہوں سے کی تھی ‘ ایک وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنی زمین کو ناپاک بندوں سے پاک کردے ‘ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے ہلاک ہونے کی وجہ سے بعد میں آنے والے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ڈریں اور ان کو نصیحت ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم ان کی پکار کا اچھی طرح جواب دینے والے ہیں ‘ اس کا ایک محمل یہ ہے کہ ہم نے حضرت نوح کی دعا بہت اچھی طرح قبول کی ‘ اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ہم ہر دعا کرنیوالے کی دعا کو اچھی طرح قبول کرنیوالے ہیں ‘ دعا کے قبول ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ حضور قلب سے دعا کی جائے ‘ غفلت اور بےپرواہی سے دعا نہ کی جائے ‘ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر فوراً دعا قبول نہ ہو تو دعا کنے کو ترک نہ کیا جائے ‘ تیسری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا صرف مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرے بلکہ راحت کے ایام میں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہو ‘ چوتھی شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا خود بھی اللہ تعالیٰ کی بات مانتا ہو یعنی اس کا اطاعت گزار ہو اور اس کے احکام پر عمل کرنے والا ہو ‘ پانچویں شرط یہ ہے کہ دعا کے اول اور آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور سید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھے ‘ چھٹی شرط یہ ہے کہ وہ دعا میں حد سے تجاوز نہ کرے اور ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کی دعا تقدیر سے متصادم نہ ہو۔۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 75