أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ لَاِبۡرٰهِيۡمَ‌ۘ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ابراہیم بھی ان کے گروہ سے ہیں

تفسیر:

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ابراہیم بھی ان کے گروہ سے ہیں کیونکہ وہ قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوئے۔ جب انہوں نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا : تم کن چیزوں کی عبادت کررہے ہو ؟ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کررہے ہو ! تو اب رب العلمین کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے ؟ پھر انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر ڈالی پھر کہا بیشک میں بیمار ہونے والا ہوں سو وہ پیٹھ موڑ کر ان کے پاس سے چلے گئے پھر خاموشی سے ان کے معبودوں کے پاس گئے اور ان سے کہا تم کیوں نہیں کھاتے ؟ تمہیں کیا ہوا ؟ تم بولتے کیوں نہیں ؟ پھر انہوں نے خاموشی کے ساتھ دائیں ہاتھ سے ان پر ضرب لگائی پھر وہ لوگ دوڑتے ہوئے آپ کے پاس آئے ابراہیم نے کہا تم اپنے ہی تراش کیے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہو ! حالانکہ تم کو اور تمہارے کاموں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے انہوں نے کہا ان کے لیے عمارت بنائو اور ان کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دو انہوں نے ابراہیم کے خلاف سازش کا ارادہ کیا تو ہم نے ان ہی کو نیچا کردیا (الصفت : ٩٨۔ ٨٣)

شیعہ کا لغوی معنی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے شیعہ نوح سے ہونے کی وضاحت

الصفت : ٨٣ میں ہے : اور بیشک ابراہیم بھی ان کے شیعہ (گروہ) سے ہیں

شیعۃ کا مادہ ‘ شیع ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کا پھیلنا اور قوی ہونا ‘ اگر کوئی خبر پھیل جائے اور قوی ہوجائے تو کہا جاتا ہے شاع الخبر ‘ اور جب کوئی قوم پھیل جائے اور اس کی تعداد کثیر ہوجائے تو کہا جاتا ہے شاع القوم ‘ انسان جن لوگوں سے قوت حاصل کرے اور جو لوگ اس سے محبت کرنے والے اور اس کے ہم خیال ہوں ان کو اس کا شیعہ کہا جاتا ہے۔(الفردات ج ١ ص ٣٥٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

علامہ علی بن حبیب الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

شیعہ کا معنی ہے متبعین ‘ یہ ابن بحر کا قول ہے ‘ اور الاصمعی نے کہا ہے کہ شیعہ کا معنی ہے اعوان اور مدد گار ‘ یہ لفظ شیاع سے ماخوذ ہے ‘ شیاع ان چھوٹی لکڑیوں کو کہا جاتا ہے جن کو بڑی لکڑیوں کے ساتھ ملا کر جلایا جاتا ہے اور وہ چھوٹی لکڑیاں جلانے میں مددگار ہوتی ہیں ‘ اور اس آیت کا معنی ہے حضرت ابراہیم ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور ان کے منہاج اور ان کے طریقہ پر تھے۔ (النکت و العیون ج ٥ ص ٥٤ )

علامہ محمود بن عمر الزمخشری المتوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں :

حضرت نوح (علیہ السلام) کے جو عقائد مشہور تھے ‘ حضرت ابراہیم علہ السلام ان ہی عقائد پر تھے ‘ اگرچہ ان کی شریعتیں مختلف تھیں ‘ یا اس کا معنی ییہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ کے دین پر متصلب اور متشدد ہونا بہت شائع ہوچکا تھا یعنی پھیل چکا تھا اور مکذبین کی سختیوں پر ان کا صبر کرنا بھی بہت مشہور ہوچکا تھا ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے ان دونوں کے اکثر احکام شرعیہ میں اتفاق ہو ‘ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے درمیان دونبی تھے ‘ حضرت ھود اور حضرت صالح (علیہما السلام) ‘ اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا عرصہ تھا (قرآن مجید میں ان دو نبیوں کا ذکر ہے ‘ اتنے لبمے عرصہ میں اور نبی بھی آئے ہوں گے) ۔ (الکشاف ج ٤ ص ٥٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 83