أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَبِعَذَابِنَا يَسۡتَعۡجِلُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

کیا وہ ہمارے عذاب کو جلد طلب کررہے ہیں !

الصفت : ١٧٧۔ ١٧٦ میں ہے : کیا وہ ہمارے عذاب کو جلد طلب کررہے ہیں۔ پس وہ عذاب جب ان کے صحن میں نازل ہوگا تو ان لوگوں کی کیسی بری صبح ہوگی جن کو عذاب سے ڈرایا جا چکا تھا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان کو اپنے سامنے کوئی عذاب آتا دکھائی نہیں دیتا تھا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ جس عذاب سے ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ اب تک آیا کیوں نہیں ؟ اور ان کا یہ مذاق اڑانا ان کی جہالت کی وجہ سے تھا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے وہ کام اس وقت سے پہلے ہوسکتا ہے اور نہ اس وقت سے موخر ہوسکتا ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس عذاب کو وہ جلد طلب کررہے ہیں جب وہ عذاب ان کے صحن میں نازل ہوگا تو وہ انکی نہایت بری صبح ہوگی ‘ اس عذاب سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور دنیا میں کفار کی مادی شکست اور ان کی ذلت اور رسوائی کا عذاب بھی ہوسکتا ہے ‘ اور اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت خیبر پہنچے اور جب آپ کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے ‘ جب صبح ہوئی تو یہود اپنے کدال اور اپنی ٹوکریاں لے کر نکلے ‘ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا محمد ‘ اللہ کی قسم محمد (آگئے ہیں) اور وہ لشکر کے ساتھ ہیں ‘ تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خیبر تباہ اور برباد ہوگیا ‘ ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو اس قوم کی صبح کیسی خراب ہوتی ہے جن کو عذاب سے ڈرایا جا چکا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٩٧‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٥٥٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٦٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٧٤٥‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٣١٧١‘ عالم الکتب بیروت ‘ جامع المسانید والسنن ج ٢٣ ص ١٦٠‘ رقم الحدیث : ٢٥٧٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 176