أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيۡنَ مَنَاصٍ ۞

ترجمہ:

ہم ان سے پہلے بھی بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں، انہوں نے بہت فریاد کی اور وہ وقت نجات کا نہ تھا

” ولات حین مناص “ کی تفسیر

اس کے بعد فرمایا : ” ہم ان سے پہلے بھی بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں، انہوں نے بہت فریاد کی مگر وہ وقت نجات کا نہ تھا “۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ کافر قوموں پر دنیا میں عذاب نازل فرمایا تو وہ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے چیخے چلائے اور انہوں نے بلند آواز کے ساتھ نداء کی، انہوں نے نداء میں کیا کہا یہ اس آیت میں نہیں بیان فرمایا، مفسرین نے اس کے حسب ذیل محامل ذکر کیے ہیں، انہوں نے نداء کرتے ہوئے کہا :

١) انہوں نے فریاد کی کہ ان سے یہ عذاب دور کردیا جائے۔

٢) جب انہوں نے عذاب دیکھا تو انہوں نے بہ آواز بلند اپنے کفر، شرک اور تکبر سے توبہ کرلی اور ایمان لے آئے۔

٣) وہ اپنے غم اور اندوہ کو ظاہر کرنے کے لئے اور درد اور بےچینی کی وجہ سے محض چیخ و پکار کررہے تھے، جیسا کہ درد اور بےچینی میں مبتلا شخص اس طرح کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ولات حین مناص “ یعنی یہ وقت عذاب سے فرار اور نجات کا نہ تھا۔

خلیل اور سیبویہ نے کہا : اس آیت میں لات، لا المشبھۃ بلیس ہے اور اس میں تازائدہ ہے اور اس تاکو زیادہ کرنے کی وجہ سے اس میں دو خصوصی حکم آگئے، ایک یہ کہ لات صرف ان اسماء پر داخل ہوگا جن میں احیان اور اوقات کا معنی ہو، جیسے مناص کا معنی مدد کا وقت ہے یا نجات کا وقت ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو لا المشبھہ بلیس دو جزئوں یعنی اسم اور خبر پر داخل ہوتا ہے لیکن لات صرف ایک جز پر داخل ہوگا، صرف اسم پر یا صرف خبر پر جیسا کہ اس آیت میں ہے۔

الاخفش نے کہا : لات میں لانفی جنس کا ہے اور اس پر تا کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ نفی احیان اور اوقات کی نفی کے ساتھ مخصوص ہے اور اس آیت کا معنی ہے ” اور یہ ان کی نجات کا وقت نہ تھا “ اور مناص کا معنی ہے نجات اور مدد کی جگہ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٦٧۔ ٣٦٦، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حسن بصری نے کہا : انہوں نے توبہ کے ساتھ نداء کی اور یہ وقت توبہ کے قبول ہونے کا نہ تھا کیونکہ عذاب آنے کے بعد عمل نفع نہیں دیتا۔

القشیری نے کہا : جس چیز کی وہ نداء کررہے تھے، وہ وقت اس کی نداء کا نہ تھا، ہرچند کہ انسان اسی وقت چیخ و پکار اور فریاد کرتا ہے جب اس پر مصیبت آتی ہے لیکن یہ وقت اس مصیبت سے نجات کا نہ تھا۔

الجرجانی اور افراء نے کہا : انہوں نے ایسے وقت میں عذاب سے فرار اور نجات کو طلب کیا جب عذاب سے ان کی نجات نہیں ہوسکتی تھی۔

اس آیت کی نظیر حسب ذیل آیات ہیں :

فَلَمَّارَاَوْابَاْسَنَا قَالُوْااٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ فَلَمْ یَکْ یَنْفَعُھُمْ اِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَاط سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ ج وَخَسِرً ھُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ (المومن ٨٥۔ ٨٤)

پس جب بھی کافر ہمارا عذاب دیکھتے تو کہتے کہ ہم اللہ کے واحد ہونے پر ایمان لے آئے اور جن جن کو ہم نے اس کا شریک بنایا تھا ہم ان کا اب کفر اور انکار کرتے ہیں جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے تو پھر ان کا ایمان ان کو نفع دینے والا نہ تھا، یہ اللہ کا طریقہ مستمرہ ہے جو اس نے پہلی قوموں میں جاری کیا ہوا ہے اور کفار ایسے وقت میں (ہمیشہ) خراب و خوار ہوئے

حَتّٰیٓ اِذَاَ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْہِمْ بِالْعَذَابِ اِذَاھُمْ یَجْعَرُوْنَ ط لَا حَّجْئَرُوا الْیَوْمَ اِنَّکُمْ مِّنَّا لَاتُنْصَرُوْنَ

حتیٰ کہ جب ہم نے کافروں کے عیش پرست لوگوں کو عذاب میں گرفتار کرلیا تو لگے وہ فریاد کرنے اور بلبلانے آج تم فریاد نہ کرو، آج ہماری طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی حَتّٰیٓ اِذَآاَدْرَکَہُ الْغَرَقُ لا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْآاِسْرَآئِ یْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ آٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ (یونس : ٩١۔ ٩٠)

فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس نے کہا : میں اس پر ایمان لایا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (فرمایا :) اب (ایمان لایا ہے) حالانکہ اس سے پہلے تو نے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں میں سے تھا

سو اس وقت فرعون کی توبہ قبول نہیں کی گئی اور اس کو غرق کردیا گیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 3