أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡ‌ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ ۞

ترجمہ:

انہوں نے دعا کی اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کے لائق نہ ہو، بیشک تو ہی بہت دینے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

انہوں نے دعا کی : اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو، بیشک تو ہی بہت دینے والا ہے (ص ٓ: ٣٥)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی توبہ کا محمل

جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا تھا وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ہے اور مغفرت اس وقت طلب کی جاتی ہے جب کوئی گناہ ہوچکا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کوئی گناہ کیا تھا جس پر انہوں نے استغفار کیا تھا، امام رازی اس کے جواب میں فرماتے ہیں : انسان اس حال سے خالی نہیں ہے کہ اس سے کوئی افضل اور اولیٰ کام ترک ہوجاتا ہے اور اس وقت وہ مغفرت طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے، کیونکہ ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک برائیوں کے درجہ میں ہوتی ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٩٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

میں کہتا ہوں کہ اس کی نظیر یہ حدیث ہے :

ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب پر حجاب اور آپ کی توبہ اور استغفار کا محمل

اغرمزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے دل پر ایک ابر چھا جاتا ہے اور بیشک میں ایک دن میں اللہ سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٥) قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ اس حدیث میں شرح میں لکھتے ہیں :

غین کا معنی ہے حجاب یعنی میرے دل پر اس طرح حجاب چھا جاتا ہے جس طرح آسمان پر ابر چھا جاتا ہے، اس کا محمل یہ ہے کہ آپ جو اپنے معمول کے مطابق اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے، بعض اوقات کسی شغل یا تکلیف یا امت کے معاملات میں غور و فکر یا دنیاوی ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ ذکر رہ جاتا تھا تو اس وجہ سے آپ کے دل کے انوار پر حجاب چھا جاتا تھا اسو آپ اس پر استغفار کرتے تھے، کیونکہ آپ کی خواہش تھی کہ آپ دائما اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہیں، ایک قول یہ ہے کہ جب آپ اپنے وصال کے بعد امت کے احوال پر مطلع ہوتے تو ان کی خطائوں سے آپ کے دل پر ایک ابر چھا جاتا اور آپ اپنی امت کے لیے استغفار کرتے تھے، ایک قول یہ ہے کہ جب آپ امت کی مصلحتوں میں غور و فکر کرتے اور امت کی آپس کی لڑائیوں پر مطلع ہوتے تو آپ اس پر استغفار کرتے تھے، ہرچند کہ امت کی مصلحت کی کوشش کرنا بھی بہت عظیم عبادت ہے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل مقام تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ کرنا اور اس کی صفات کا مطالعہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ماسواہر چیز سے منقطع ہو کر صرف اس کی ذات میں مستغرق ہونا ہے۔ اس لیے آپ اپنے اس بلند مقام کے اعتبار سے اس کو کم درجہ خیال فرما کر اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو استغفار کرنے کا حکم دیا ہے آپ اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے اور تواضح اور اللہ تعالیٰ کی طرف افتقار کا اظہار کرنے کے لیے اور اللہ کی بارگاہ میں دائما عجز کرنے کے لیے اور اس کی نعمتوں کا کما حقہ، شکر ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔

علامہ محاسبی نے کہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مامون اور محفوظ ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمت اور اس کے جلال سے خوف زدہ رہتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسی ڈر اور خوف کی حالت میں ان کے دلوں پر ابر چھا جاتا ہو اور آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے اور اس کی عظمت کے خیال سے استغفار کرتے ہوں اور یہ اعتقاد کیا جائے کہ آپ کا استغفار اس ابر کی وجہ سے تھا بلکہ ابر اور وجہ سے ہے اور استغفار اور وجہ سے ہے اور یہ استغفار اس ابر کے ساتھ مربوط نہیں ہے، جیسا کہ اس باب کی دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے : اے لوگوں اللہ کی طرف توبہ کرو، کیونکہ میں ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں اور ہرچند کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے اور پچھلے ذنب (یعنی بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام) کی مغفرت کردی گئی ہے، اس کے باوجود آپ کا استغفار کرنا اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے ہے اور اس کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ میں معصوم اور مغفور ہونے کے باوجود اس سے استغفار کرتا ہوں اور بعض علماء نے کہا : اس ابر سے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات پاک اور صاف دلوں میں بھی غفلت اور بعض دنیاوی مباح چیزوں کی طرف رغبت کی وجہ سے انوار الٰہیہ پر حجاب چھا جاتے ہیں سو آپ اس حجاب کی وجہ سے استغفار کرتے تھے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٨ ص ١٩٨۔ ١٩٧، مطبوعہ دارالوفاء، بیروت، ١٤١٩ ھ)

ایک دن میں ایک سو بار توبہ کرنے کی توجیہ اور توبہ کی اقسام

علامہ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں : اس حدیث میں غین کا لفظ اور غین کا معنی ہے ڈھانپنا، بادل کو بھی غین اس لیے کہتے ہیں کہ وہ آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے اور کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ گناہوں کے اثر سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب پر زنگ چڑھ گیا تھا جس نے آپ کے قلب کے انوار کو ڈھانپ لیا تھا، کیونکہ جن کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) سے صغائر کا صدور جائز ہے وہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں کہ صغائر کے صدور سے انبیاء (علیہم السلام) کے قلوب پر ایسے حجاب آجاتے ہیں جیسے عام گنہگاروں کے قلوب پر حجاب آجاتے ہیں، بلکہ وہ مغفور اور مکرم ہیں اور ان سے کسی چیز کا مواخذہ نہیں ہوگا، پس اس سے معلوم ہوا کہ غین (ابر یا حجاب) گناہ کے سبب سے نہیں ہے، پھر اس غین کے سبب میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) آپ دائما اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے اور بعض اوقات کسی مشغولیت یا کسی اور سبب سے وہ ذکر نہیں کرسکتے تھے تو اس وجہ سے آپ کے دل پر حجاب آجاتا تھا اور آپ اس کی وجہ سے استغفار کرتے تھے۔

(٢) آپ امت کے احوال پر مطلع ہوتے اور آپ کے بعد امت جن حالات سے گزرے گی اس پر آپ استغفار کرتے تھے۔

(٣) آپ امت کی اصلاح کے لیے جن کاموں میں مشغول ہوتے تھے، یا جہاد میں مصروف ہوتے تھے، اگرچہ یہ امور بھی عظیم عبادات ہیں تاہم آپ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے، اس سے ایک درجہ کم ہیں، اس لیے آپ کے قلب پر حجاب آجاتا تھا اور آپ اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔

(٤) آپ اپنے احوال میں دائما ترقی کرتے رہتے تھے، جب آپ ایک مقام سے ترقی کرکے اس سے بلند مقام پر پہنچتے تو پہلے مقام کو نئے اور بلند مقام کی بہ نسبت ناقص قرار دیتے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر مغفرت کرتے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن میں ایک سو بار توبہ کرتے تھے، اس میں توبہ کے دوام پر دلیل ہے اور انسان جب بھی اپنے گناہ کو یاد کرے تو نئی توبہ کرتا رہے، حتیٰ کہ اس کے گناہ کا معاف ہونا یقینی ہوجائے اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خوف کو لازم رکھیں اور اپنے افعال پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے رہیں اور یہ عزم رکھیں کہ ہم دوبارہ اس گناہ کو نہیں کریں گے اور اس گناہ کا تدارک اور اس کی تلاف کریں اور اگر ہم فرض کرلیں کہ ہمارا وہ گناہ معاف ہوچکا ہے تو ہم پر واجب ہے کہ پھر بھی اس کا شکر ادا کرتے رہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اتنا زیادہ قیام کرتے تھے کہ آپ کے دونوں پیر پھٹ گئے، حضرت عائشہ (رض) نے کہا : یارسول اللہ ! آپ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام) کی مغفرت فرمادی ہے، آپ نے فرمایا : کیا میں اس سے محبت نہیں کرتا کہ میں اللہ کا بہت زیادہ شکرگزار بندہ ہوں۔

صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٢٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٥٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٤٨، مسند احمد ج ٦ ص ١١٥، جامع المسانید عائشہ رقم الحدیث : ١٠٤٠ )

توبہ کرنے کی کئی اقسام ہیں، عوام اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور خواص اپنی غفلتوں سے توبہ کرتے ہیں اور خواص الخواص اس سے توبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی نیک کام یا جائز فعل میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات کے مشاہدہ اور اس کی صفات کے مطالعہ سے اعراض کرتے ہیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دن میں سو بار توبہ کرتے تھے وہ اسی قسم کی توبہ تھی۔ (المفہم ج ٧ ص ٢٨۔ ٢٦، دارابن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ) علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ، علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ، اور علامہ سنوسی مالکی متوفی ٨٩٥ ھ نے بھی قاضی عیاض اور علامہ قرطبی کی عبارات کو نقل کیا ہے۔ (شرح مسلم للنواوی ج ١١ ص ٦٧٩٠، مکتبہ نزار مصطفی، اکمال المعلم اکمال الاکمال ج ٩ ص ١٠٤۔ ١٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

دعا میں اخروی مطالب کو دنیاوی مطالب پر مقدم رکھنا۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پہلے اپنے لیے مغفرت کی دعا کی اور پھر یہ دعا کی : ” اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو “۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس دعا میں یہ دلیل ہے کہ دنیاوی مقاصد اور مطالب پر اخروی مطالب اور مقاصد کو مقدم رکھنا چاہیے، کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پہلے اپنے لیے مغفرت کی دعا کی اور پھر اپنے لیے سلطنت کی دعا کی، اسی طرح دیگر انبیاء (علیہم السلام) کا بھی طریقہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں : میں نے اپنی امت کو یہ تلقین کی :

استغفروا ربکم ط انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم قدرارا ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انھرا (نوح : ١٢۔ ١٠) اپنے رب سے مغفرت کرو، بیشک وہ بہت بخشنے والا ہے وہ تمہارے اوپر موسلا دھار بارش بھیجے گا اور تمہارے اموال اور اولاد میں خوب اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنا دے گا اور تمہارے لیے دریا نکال دے گا

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ دعا کرنا کہ ان کو ایسی سلطنت دی جائے جو دوسروں کو نہ ملے، آیا یہ قول حسد کو مستلزم ہے ؟

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یہ کہا : ” اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو۔ “ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ چاہنا کہ جو نعمت ان کو ملے وہ اور کسی کو نہ ملے، حسد کی خبر دے رہا ہے اور حسد کرنا تو مذموم صفت ہے، اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) اس آیت میں ملک سے مراد ہے قدرت اور اس آیت کا معنی ہے : مجھے ان چیزوں پر قدرت عطا فرما جن پر اور کوئی قادر نہ ہو، تاکہ میں ان چیزوں پر قدرت میرا معجزہ ہوجائے اور وہ میری نبوت اور رسالت کی صحت پر دلیل ہوجائے، کیونکہ معجزہ کی یہی تعریف ہے کہ نبی ایسا کام کرکے دکھائے جس پر اس زمانہ میں کوئی دوسرا قادر نہ ہو اور وہ چیلنج کرکے یہ کہے کہ میرے نبی ہونے کی یہ دلیل ہے، اگر تم مجھے نبی نہیں مانتے تو تم بھی ایسا کام کرکے دکھائو، جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے عصا کو اژدھا بنا کر پیش کیا اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کے ساتھ چیلنج کیا تھا اور اس معنی پر دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رخاء حیث اصاب۔ (ص ٓ: ٣٦) سو ہم نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، وہ جس جگہ کا ارادہ کرتے تھے وہ ان کا حکم کے مطابق نرمی سے چلتی تھی۔ پس ہوا کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے چلنا ان کو زبردست قدرت تھی اور ان کی عظیم سلطنت تھی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ان کا معجزہ تھا اور ان کی نبوت پر نہایت مضبوط اور مستحکم دلیل تھی، پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا تھا : ” اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو “ اس کا معنی یہ ہے کہ مجھے ایسی چیز پر قدرت عطا فرما جس کے معارضہ کرنے پر کوئی اور قادر نہ ہو اور اسی کو معجزہ کہتے ہیں۔

(٢) جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) بیمار ہوئے، پھر اس کے بعد صحت مند ہوگئے تو انہوں نے جان لیا کہ دنیا کی نعمتیں دوسروں کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں، خواہ وراثت سے، خواہ کسی اور سبب سے، اس لیے انہوں نے دعا کی : اے میرے رب ! مجھے ایسی نعمت عطا فرما جو مجھ سے منتقل نہ ہوسکے، سو اس دعا کا یہ منشاء نہیں ہے کہ وہ نعمت کسی دوسرے کو نہ ملے، بلکہ اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ نعمت ان سے زائل نہ ہو۔

(٣) دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہونا مطلوب ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں : دنیا کی پسندیدہ چیزوں پر قدرت کے باوجود ان سے آخرت کی طرف منتقل ہونا، یا دنیا کی پسندیدہ چیزوں پر قدرت نہ ہو اور پھر ان کو چھوڑ کر آخرت کی طرف منتقل ہونا اور ظاہر ہے ان میں افضل پہلی قسم ہے، پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ دعا کی : اے اللہ ! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو تمام انسانوں کی سلطنت سے فزوں تر ہو اور کسی کے پاس ایسی سلطنت نہ ہو، حتیٰ کہ میں اس پر قدرت کے باوجود اس سے احتراز کرکے آخرت کی طرف راغب ہوں تاکہ میرا ثواب زیادہ کامل اور زیادہ افضل ہو۔

(٤) عبادت کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک یہ ہے کہ انسان کو دنیا کی نعمت میسر نہ ہو اور دنیا کی طرف راغب کرنے والی کوئی چیز اس کو حاصل نہ ہو اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور دوسری قسم یہ ہے کہ اس کہ انتہائی مرغوب اور لذیذ چیزیں حاصل ہوں اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور ظاہر ہے کہ عبادت کا یہ دوسرا مرتبہ زیادہ افضل اور زیادہ کامل ہے، اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ ان کو اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے بڑی اور عظیم سلطنت عطا فرمائے اور پھر وہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں تاکہ ان کی عبادت زیادہ افضل اور زیادہ کامل ہو۔

(٥) جو آدمی دنیا پر قادر نہیں ہوتا اس کا دل دنیا کی نعمتوں کی طرف متوجہ رہتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اصل نعمت تو دنیا ہی ہے۔ اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی : اے اللہ ! مجھے دنیا کی عظیم سلطنت عطا فرما، ایسی عظیم سلطنت جو اور کسی کے پاس نہ ہو، پھر جب میں اتنی عظیم سلطنت کے باوجود تیری اطاعت اور عبادت کروں گا۔ تب ارباب عقل پر یہ منکشف ہوگا کہ دنیا مقصود نہیں ہے، ورنہ اتنی عظیم سلطنت رکھنے کے باوجود حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں کیوں مشغول اور منہمک رہتے، پس دنیا کچھ نہیں ہے، اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے۔

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افضل الرسل ہونا

اس جگہ ایک اور سوال یہ ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں یہ کہا : ” اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو “ آیا اس عموم میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شامل ہیں یا نہیں، اگر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس عموم میں شامل ہیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی نعمت عطا فرمائی جو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عطا نہیں فرمائی اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افضل الرسل ہونے کے خلاف ہے، آپ کے افضل الرسل ہونے کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور فخر نہیں ہے اور میرے ہی ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور فخر نہیں ہے اور اس دن آدم اور ان کے ماسوا جتنے بنی ہوں گے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے میں زمین سے نکلوں گا۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٥۔ ١٣٤٨، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ١٠٤٧) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب بیٹھے ہوئے انبیاء (علیہم السلام) کے فضائل بیان کررہے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور فرمایا : میں نے تمہاری باتیں سنیں اور تمہارے تعجب کو سنا، بیشک ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور وہ اسی طرح ہیں اور موسیٰ نجی اللہ ہیں اور وہ اس طرح ہیں اور عیسیٰ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور وہ اسی طرح ہیں اور آدم صفی اللہ ہیں اور وہ اسی طرح ہیں، سنو ! میں حبیب اللہ ہوں اور فخر نہیں ہے، قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا میں ہوں اور فخر نہیں ہے اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور قیامت کے دن سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور فخر نہیں ہے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا اور اللہ میرے لیے کھولے گا تو میں جنت میں داخل ہوں گا اور میرے ساتھ فقراء مؤمنین ہوں گے اور فخر نہیں ہے اور میں اکرم الاولین والاٰخرین ہوں اور فخر نہیں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٦، سنن دارمی رقم الحدیث : ٤٨) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور فخر نہیں ہے اور میں خاتم النبیین ہوں اور فخر نہیں ہے اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور میری شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور فخر نہیں ہے۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : ٥٠ )

ہوائوں اور جنات پر تصرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حاصل ہے

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جو سلطنت دی گئی تھی اور جس سلطنت کے متعلق انہوں نے دعا کی تھی کہ اس میں ان کا کوئی شریک نہ ہو وہ ان کی ہوا اور جنات پر حکومت تھی، جیسا کہ ان آیتوں میں ہے :

فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رعاء حیث اصاب والشیطین کل بناء وغواص (ص ٓ: ٣٧۔ ٣٦) سو ہم نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، وہ جس جگہ کا ارادہ کرتے تھے وہ ان کے حکم کے مطابق نرمی سے چلتی تھی اور قوی جنات کو بھی ان کے تابع کردیا، ہر معمار اور غوطہ خور کو ہوا اور جنات دونوں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں شامل ہیں اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے انبیاء پر چھ وجوہ سے فضیلت دی گئی ہے : مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں اور رعب سے میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے اور تمام روئے زمین کو میرے لیے آلہ تیمم اور مسجد بنادیا گیا ہے اور مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبیوں کو ختم کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٥٣، سنن ابن ماجہ ٥٦٧، مسند احمد ج ٢ ص ٤١٢)

اس حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مخلوق کے رسول ہیں اور تمام مخلوق میں ہوا اور جنات بھی شامل ہیں۔ پس ہوا اور جنات بھی آپ کی امت ہیں اور رسول اپنی امت پر غالب اور متصرف ہوتا ہے، سو اس سے لازم آیا کہ جنات اور ہوائیں بھی آپ کے زیر تصرف ہیں اور جنات پر آپ کے تصرف کی واضح دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گذشتہ شب ایک بہت بڑا جن مجھ پر حملہ آور ہوا، تاکہ وہ میری نماز کو فاسد کردے، پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قادر کردیا، سو میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کو مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں، حتیٰ کہ تم صبح کو اٹھو تو تم سب اس کی طرف دیکھ رہے ہو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آئی : ” اے میرے رب ! مجھے اسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو “ پھر آپ نے اس کو دھتکارا ہوا چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث ٥٤١ )

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس خبیث جن پر غلبہ اور تصرف حاصل تھا، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلیمان کی دعا کی رعایت کرتے ہوئے اپنے اس غلبہ اور تصرف کو ظاہر نہیں فرمایا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں جو یہ کہا ہے کہ مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو، اس کے عموم سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مستثنیٰ ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الرسل ہیں اور تمام مخلوق کے رسول ہیں، خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بہ منزلہ امتی اور مقتدی ہیں اور ایک امتی کے لیے کب زیبا ہے کہ وہ اپنے نبی سے فائق ہونے کی دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو ہوائوں اور جنات پر تصرف عطا فرمایا، لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان کو ایک نعمت عطا فرماتا اور اپنے محبوب کو اس نعمت سے محروم رکھتا، سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی یہ نعمت عطا فرمائی جبھی تو آپ نے اس حملہ آور جن کو ناکام اور نامراد لوٹا دیا اور اگر آپ چاہتے تو اس کو مسجد کے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیتے۔ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبدالملک ابن بطال مالکی متوفی ٤٤٩ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات شیطان کو دیکھا اور چونکہ شیطان ایک جسم ہے، اس لیے آپ کو اس پر قدرت دی گئی، کیونکہ تمام جسموں پر قدرت ممکن ہے۔ لیکن آپ کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جو چیز دی گئی ہے اس کو ان کے ساتھ مخصوص رکھا جائے، اس لیے ہرچند کو آپ اس کو گرفتار کرنے پر قادر تھے آپ نے اس کو گرفتار نہیں کیا، کیونکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اس نعمت کے ساتھ انفراد قائم رہے اور آپ اس پر حریص تھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا کا قبول ہونا برقرار رہے۔ (شرح البخاری لابن بطال ج ٢ ص ١٠٩، مکتبہ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ) علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٧٥٥ ھ نے بھی علامہ ابن بطال کی اس عبادت کو بعینہٖ نقل کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٤ ص ٣٤٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 35