أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰكَ خَلِيۡفَةً فِى الۡاَرۡضِ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الۡهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا يَوۡمَ الۡحِسَابِ۞

ترجمہ:

اے دائود ! بیشک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنادیا ہے، سو آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور خواہش کی پیروی نہ کیجئے، ورنہ وہ (پیروی) آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی، بیشک جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ روز حساب کو بھول جاتے ہیں ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اے دائود ! بیشک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنادیا ہے، سو آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور خواہش کی پیروی نہ کیجئے ورنہ وہ (پیروی) آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی، بیشک جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ روز حساب کو پھول جاتے ہیں

خلیفہ کا معنی اور اس سے حضرت دائود (علیہ السلام) کی عصمت پر استدلال

خلیفہ کا لغوی معنی ہے جانشین، نائب، قائم مقام۔ علامہ راغب اصفہانی اس کا عرفی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : خلافت کا معنی ہے دوسرے شخص کی نیابت کرنا، یا اس وجہ سے کہ اصل شخص کہیں چلا گیا تو یہ غیر موجودگی میں اس کا نائب ہے اور یا اس وجہ سے کہ اصل شخص فوت ہوگیا ہے اور اب یہ اس کے قائم مقام ہے اور یا اس وجہ سے کہ اصل شخص اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے تو یہ اس کی ذمہ داریوں کو پورا کررہا ہے اور یا اس وجہ سے کہ جس کو خلیفہ بنایا گیا ہے اس کو ان لوگوں پر عزت، فضیلت اور شرف عطا کرتا ہے جن پر اس کو خلیفہ بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے جو انبیاء (علیہم السلام) کو اور اپنے نیک بندوں کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے اس کی یہی چوتھی وجہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غائی ہونے سے، فوت ہونے سے اور عاجز ہونے سے پاک ہے، سو اللہ تعالیٰ نے جن کو لوگوں کا خلیفہ بنایا ہے وہ ان کو دوسرے لوگوں پر عزت اور شرف عطا فرمانے کے لیے ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

ھوالذی جعلکم خلٓئف فی الارض۔ (فاطر؍٣٩) وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا۔

یدائود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض۔ (ص ٓ : ٢٦) اے دائود ! بیشک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنادیا۔(المفردات ج ١ ص ٢٠٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

اس آیت میں بھی یہودیوں کی وضع کی ہوئی اس روایت کا رد ہے اور ان لوگوں کا بھی رد ہے جنہوں نے ص ٓ: ٢٥۔ ٢١ سے یہ سمجھا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اور یاہ کی بیوی سے نکاح کرنے کی خاطر اس کو جنگ میں بھیج کر قتل کروادیا، اگر ان آیات کا یہ مطلب ہوتا تو اس سے متصل آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت دائود (علیہ السلام) کو عزت اور وجہاہت عطا فرمانے کا کیوں ذکر فرماتا۔ امام رازی فرماتے ہیں : خلیفہ کا معنی ہے جو زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرتا ہے، اگر اس سے متصل پہلی آیتوں کا معنی یہ ہوتا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اور یاہ کی بیوی پر قبضہ کرنے کے لئے اس کو مروادیا تو اس کے متصل بعد حضرت دائود (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانے کا کیوں ذکر فرماتا، کیونکہ خلیفہ اس شخص کو کہتے ہیں جو زمین میں فتنہ، فساد اور خونریزی کو دور کرے نہ کہ اس شخص کو خلیفہ بنایا جاتا ہے جو اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کے لئے کسی کو ناحق قتل کرائے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٣٨٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

انسانی معاشرہ میں خلیفہ کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت اور طبیعت کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ مل جل کر زندگی گزارتا ہے، کیونکہ ایک انسان تنہا اپنی تمام ضروریات کا متکفل نہیں ہوسکتا، اس کو زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت ہے اور غذا گوشت اور زمین کی پیداوار پر مشتمل ہوتی ہے، زمین کی پیداوار میں گندم، جُو، چنا اور چاول ہیں اور گرمیوں اور سردیوں میں پیدا ہونے والی مختلف قسم کی سبزیاں ہیں، اسی طرح متعدد اقسام کے پھل ہیں جو سال کے مختلف موسموں اور ایام میں پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح حلال گوشت مختلف جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، انسان کو اپنی نشو و نما اور بقا میں مختلف اجناس کی روٹی، چاول، سبزیاں اور پھلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک انسان تنہا ان تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا، پھر انسان کو اتنا ستر ڈھانپنے کے لیے لباس کی ضرورت ہوتی ہے، لباس روئی کو کاٹ کر کپڑا بننے سے حاصل ہوتا ہے اور اب کپڑا نائلون سے بھی بنتا ہے جو پٹرولیم سے حاصل ہوتا ہے اور ان کی بھی ان گنت اقسام ہیں اور کھانا پکانے اور روئی اور پٹرولیم سے کپڑا بنانے کے لیے مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے جو لوہے اور مختلف دھاتوں سے حاصل ہوتی ہیں، اور یہ انواع و اقسام کی مشینیں اور ان کے کارخانے ہیں، پھر انسان کو سردی، گرمی اور برسات سے محفوظ رہنے کے لیے مکان کی ضرورت ہوتی ہے اور اب مکان سیمنٹ، بجری، پتھر، مٹی، ریت، لوہے اور لکڑی سے بنتے ہیں، ان کو بنانے کے لیے ایک الگ نوع کے کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو اپنی نوع کے تحفظ اور اپنی نسل کو بڑھانے کے لیے نکاح کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان بیمار بھی پڑجاتا ہے تو اس کے لیے علاج اور معالجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے علم طب کی ضرورت ہوتی ہے اور جن اجناس سے دوائیں بنتی ہیں، ان اجناس کو تلاش کرنا، ان سے دوائیں بنانا اور سرجری کے آلات بنانا ان کے لیے کارخانے بنانے اور چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم کے حصول اور تحصیل کے لیے کتابیں لکھنے اور چھاپنے کی ضرورت ہے، درس گاہیں بنانے کی ضرورت ہے، پھر جب انسان مرجائے تو اس کو غسل دینے، کفن پہنانے، اس کی نماز جنازہ پڑھنے، اس کی قبر کھودنے اور اس کو دفن کرنے کے لیے ایک الگ نوع کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، غرض یہ کہ ایک انسان تنہا اپنی ضروریات کا متکفل نہیں ہوسکتا، اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا، اس کو پیدا ہونے، جینے اور مرنے میں دوسرے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے لامحالہ انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنی ہے۔

پھر ایک انسان اپنی ضرورت کی چیزیں دوسرے انسان سے حاصل کرتا ہے، اگر ان چیزوں کے حصول کے لیے کوئی اصول اور قانون نہ ہو تو ہر زور آور قہر اور جبر کے ذریعہ اپنی ضرورت کی چیزیں دوسرے انسان سے حاصل کرلے گا۔ لہٰذا ظلم کا دور دورہ ہوگا، پھر مظلوم کا ہے کو ظالم کے لیے اس کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرتا رہے گا اور یوں ظلم اور بربریت کے باوجود ظالم چین سے زندگی بسر کرسکے گا نہ مظلوم، اور ظلم اور جبر کی وجہ سے انسانوں کا معاشرہ عملاً جانوروں کا جتھا بن جائے گا، جس طرح جنگل میں بھیڑیوں کا ریوڑ، بھیڑوں کے گلے پر حملے کرکے زندگی گزارتا ہے۔

انبیاء (علیہم السلام) کا عموماً اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصاً خلیفۃ اللہ ہونا

اب یہ سوال ہے کہ یہ قانون کس کا بنایا ہوا ہو ؟ اگر انسان اس قانون کو بنائے گا تو اوّل تو وہ ناقص ہوگا، کامل اور جامع نہیں ہوگا اور زندگی کے تمام شعبوں پر محیط اور حاوی نہیں ہوگا، ثانیا جو انسان بھی اس قانون کو بنائے گا وہ اس قانون میں اپنی رعایت اور اپنے تحفظ کا دروازہ رکھے گا، اس میں تمام انسانوں کے لیے مساوات اور یکسانیت کے اصول نہیں ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ اس قانون کی خالق کوئی انسانوں سے ماوراء ذات ہو، جس کے پیش نظر اپنا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو اور اس کی نظر انسانیت کے تمام شعبوں پر ہو اور قیامت تک کے بدلتے ہوئے حالات اس کے علم میں ہوں اور ایسے کامل علم والی اور بےغرض ذات صرف ایک ہی ہے اور وہ اللہ عزوجل کی ذات ہے، جو انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس کی تمام ضروریات کو، انسانیت کے تمام شعبوں کو اور قیامت تک کے بدلتے ہوئے حالات کو جاننے والا ہے، اس کا بنایا ہوا قانون تمام انسانوں کے لیے یکساں قابل عمل ہے اور قیامت تک کے تمام ادوار کی ضرورتوں اور تقاضوں کا متکفل ہے اور اس قانون کو اللہ تعالیٰ ہر دور میں وحی کے ذریعہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل فرماتا رہا ہے۔

ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جو نبی اور رسول بھیجے جاتے تھے وہ ایک مخصوص علاقے، مخصوص زمانے اور مخصوص قوم کے رسول ہوتے تھے تو ان پر ان کی عبادات اور معاملات کے لیے جو احکام نازل کیے جاتے تھے وہ احکام بھی ایک مخصوص وقت تک کے لیے ہوتے تھے، ان کی تہذیب و تمدن اور ان کی ثقافت اور ان کے زمانہ کے مخصوص حالات کے تقاضوں کے اعتبار سے وہ احکام نازل کیے جاتے تھے اور وہ احکام وقتی اور عارضی ہوتے تھے اور جب کوئی دوسرا نبی آتا اور حالات بدل جاتے وہ سابقہ احکام منسوخ کرکے نئے احکام نازل کردیئے جاتے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تاآنکہ ہمارے نبی سیدنا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث کیے گئے اور آپ کو رنگ ونسل، علاقہ اور زمانہ کی تمیز اور تخصیص کیے بغیر قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے :

وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا۔ (سبا : ٢٨ )

ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام انسانوں کے لیے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا (الفرقان : ١)

وہ بہت برکت والا ہے جس نے اپنے مکرم بندے پر فیصلہ کرنے والی کتاب نازل کی، تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہو وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء : ١٠٧)

اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت تک قائم اور نافذ رہنے والے احکام دے کر بھیجا اور جو احکام تمام انسانوں کے لیے قیامت تک نافذ العمل ہیں ان کا نام اس نے اسلام رکھا اور فرمایا : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (المائدہ : ٣) آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تمہارے لیے اپنی نعمت کو مکمل کردیا اور تمہارے لیے اسلام کہ بہ طور دین پسند کرلیا۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ (آل عمران : ٨٥) اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو تلاش کرے گا تو اس سے ہرگز اس دین کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس لیے اب قیامت تک صرف اسلام کے احکام ہی قابل عمل ہیں اور وہی صحیح حاکم ہوگا جو اسلام کے احکام نافذ کرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے اور نیک مسلمانوں کو بھی زمین میں خلیفہ بنایا ہے، انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرمایا : واذقال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ (البقرہ : ٣٠) اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا : بیشک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ یدائود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض۔ (ص ٓ: ٢٥) اے دائود ! بیشک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنادیا۔ اور نیک مسلمان کو زمین میں خلیفہ بنانے کے متعلق فرمایا :

وھوالذی جعلکم خلئف الارض۔ (الانعام : ١٦٥) اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنادیا۔ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملو الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین میں قبلہم۔ (النور : ٥٥) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ کیے ان سے اللہ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ وہ ان کو ضرور اس طرح زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنادیا تھا۔ اصلاۃ تو خلیفۃ اللہ انبیاء (علیہم السلام) ہی ہوتے ہیں اور نیک مسلمانوں کو انبیاء (علیہم السلام) کے واسطے سے خلیفۃ اللہ قرار دیا جاتا ہے۔

خلیفہ کا خواہش کی اتباع کرنا کیوں عذاب شدید کا موجب ہے ؟

ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ انسان، دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور جب بہت سے لوگ ایک جگہ مل جل کر رہتے ہیں تو ان کے درمیان اختلافات اور تنازعات بھی پیدا ہوتے ہیں، اس وقت کسی ایسے صاحب اقتدار انسان کا ہونا ضروری ہے ج وان کے تنازعات کے درمیان فیصلہ کرے اور یہ ضروری ہے کہ وہ انسان اللہ کے احکام کے مطابق فیصلہ کرے اور اپنے فیصلہ میں اپنی خواہش کی پیروی نہ کرے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جو دو فریق اس کے پاس مقدمہ لے کر آئے ہوں ان میں سے ایک اس حاکم کا عزیز یا رشتہ دار ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” سو آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور خواہش کی پیروی نہ کیجئے ورنہ وہ (پیروی) آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی، بیشک جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، کیونکہ وہ روز حساب کو بھول جاتے ہیں “ (ص ٓ: ٢٦ )

خواہش کی اتباع کرنا انسان کو لذات جسمانیہ میں منہمک رکھتا ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے سے غافل ہوجاتا ہے اور وہ نفس کے مرغوبات کو حاصل کرنے میں معصیت کی دلدل میں ڈوبنے لگتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ یوم حساب کو بھول جاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک آخرت کے عذاب شدید کا موجب ہے۔ اس آیت میں ہرچند کہ حضرت دائود (علیہ السلام) سے خطاب کیا گیا اور ان کو خواہش کی اتباع کرنے پر آخرت کے عذاب کی وعید سنائی ہے، لیکن اس خطاب میں ان کی امت اور بعد کے مسلمانوں کو اس پر متنبہ کرنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نہی کو بھی مقدمات کے فیصلے میں خواہش کی اتباع کرنے پر عذاب کی وعید سنائی ہے تو تم اس وعید کے زیادہ مستحق ہو، اللہ کا نبی تو پہلے ہی خواہش کی اتباع سے بہت دور ہوتا ہے اور اس کے دل میں بےپناہ اللہ کا ڈر اور خوف ہوتا ہے، سو اس آیت میں حضرت دائود (علیہ السلام) کو خطاب ہے اور مراد ان کی امت اور بعد کے لوگوں کو تعریض کرتا ہے۔

خلافت علی منہاج النبوت کی تحقیق

علی جابر بن سمرۃ بقول سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقول لایزال الاسلام عزیزا الی اتنی عشر خلیفۃ (الی قولہ) کلھم من قریش۔

حضرت جابر سن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بارہ خلیفہ پورے ہونے تک اسلام کو غلبہ رہے گا اور فرمایا : وہ سب خلفاء قریش سے ہوں گے ؎ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٢٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢١ )

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو حیثیتیں بھی، ایک حیثیت سے آپ مہبط وحی الٰہی تھے، اس حیثیت سے آپ احکام الٰہی کی تبلیغ کرتے اور فرائض رسالت بجا لاتے اور دوسری حیثیت سے آپ مسلمانوں کے امیر، قائد اور رہنما تھے، اس حیثیت سے آپ اسلامی ریاست کے خارجی اور داخلی امور کی تدبیر فرماتے، تبلیغ اسلام کے لیے جہاد فرماتے، مختلف ملکوں کے بادشاہوں کے نام خطوط لکھواتے اور اندرون ملک احکام الٰہیہ کو عملی طور پر نافذ فرماتے، آپ کے وصال کے بعد آپ کی پہلی حیثیت کا سلسلہ بطور نبوت تو منقطع ہوگیا لیکن آپ کی دوسری حیثیت خلفاء کے روپ میں قائم ودائم رہی اور آپ کی اسی حیثیت کی جانشینی کا نام خلافت ہے۔

آیت استخلاف کی تحقیق

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وعداللہ الذین امنوا منکم وعملو الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیئمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم ولیبد لنھم من بعد خوفہم امنا۔ (النور : ٥٥) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ان میں سے بعض کے ساتھ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور اللہ تعالیٰ ان کے اس دین کو بھی غالب کرے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پسند کرلیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو ضرور امن اور چین سے بدل دے گا۔

خلافت کے موضوع پر اس آیت کی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم خلافت کی تحقیق میں اس آیت کی تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات تحقیق طلب ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مسلمان سے خلافت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے با بعض مسلمانوں سے ؟ ہر ہر مسلمان سے اس وعدہ کا ہونا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ واقع میں ہر ہر مسلمان کو روئے زمین کا خلیفہ نہیں بنایا گیا۔ مثلاً جس طرح حضرت دائود، اور حضرت سلیمان کو خلیفہ بنایا گیا یا جس طرح فرعون کے بعد بنی اسرائیل کو زمین پر غلبہ دیا گیا اس طرح ہر مسلمان کو زمین کا خلیفہ نہیں بنایا گیا بایں طور کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد زمین پر خلیفہ اور صاحب اقتدار ہو، ثانیا یہ عقلاً بھی باطل ہے کیونکہ جب ہر شخص خلیفہ، صاحب اقتدار اور حاکم ہو تو پھر محکوم کون ہوگا ؟ بلکہ اس سے ہر شخص کا حاکم اور محکوم ہونا لازم آئے گا اور یہ بداہۃً باطل ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں خلافت سے اقتدار مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے تصرف کرنا مراد ہے تو اس معنی میں مسلمانوں اور نیکوکاروں کی کوئی تخصیص نہیں ہے کیونکہ اس معنی میں تمام اولاد آدم اللہ کی خلیفہ ہے۔ ثالثاً اس آیت میں ” من “ بعیضیہ ہے کیونکہ من ابتدائیہ، بیانیہ یا زائدہ یہاں متصور نہیں ہے اور یہ اس بات کی واضح نص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بعض صالح مومنوں سے فرمایا ہے نہ کہ سب مسلمانوں سے اور اس آیت کے بلاواسطہ مخاطب حضرات صحابہ کرام تھے اور جس وقت سورة نور نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی، کیونکہ اس وقت تک سرزمین حجاز میں اسلام کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں، اس کے کچھ عرصہ بعد یہ وعدہ پورا ہوا جب نہ صرف یہ کہ اسلام سرزمین حجاز میں پھیلا بلکہ خطہ عرب سے لے کر براعظم افریقہ، براعظم ایشیا اور براعظم یورپ میں اندلس تک اذانیں گونجنے لگیں اور اسلام کا یہ عظیم الشان غلبہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کے دور خلافت میں حاصل ہوا۔ اس لیے آیت استخلاف کے اوّلین مصداق خلفاء ثلاثہ ہیں کیونکہ انہیں کے دور میں اسلام کو فتوحات حاصل ہوئیں، حضرت علی (رض) کا دور خلافت مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال میں گزرا اور ان کے دور میں اسلام کو فتوحات کے ذریعہ غلبہ حاصل نہ ہوسکا۔

اگر ” من “ تبعیضیہ سے صرت نظر کرلی جائے اور یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام امت مسلمہ کو خلافت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے تو یہ تو بالکل ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد اقتدار اعلیٰ کا حامل نہیں ہوسکتا، اس لیے اب یہ معنی مراد ہوگا کہ ہر مومن اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ہر شخص فرداً فرداً اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہوگی، مرد اپنے اہل خانہ کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق پرسش ہوگی اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں پرسش ہوگی اور نوکر اپنے مالک کے مال میں حاکم ہے اور اس سے اس کے بارے میں پرسش ہوگی، سنو ! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٢٥٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٧٠٥) اس معنی کے لحاظ سے اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی حکومت میں تمام مسلمان اقتدار میں شریک ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا امیر صرف انتظامی سربراہ ہوتا ہے، ریاست کا یا مسلمانوں کا مالک نہیں ہوتا اور یہ کہ ریاست کا ہر باشندہ خلافت اور حکومت میں برابر کا شریک ہوتا ہے، ریاست میں نسلی یا طبقاتی امتیازات کا کوئی تصور نہیں ہوتا، اس لیے ریاست کے تمام باشندے ایک دوسرے کے مساوی ہوں گے اور جس شخص میں ترقی کی جس قدر صلاحیت اور قابلیت ہوگی وہ اس قدر آگے بڑھ سکے گا۔

خلافت کی تعریف

علامہ میر سید شریف لکھتے ہیں : قال قوم من اصحابنا الامامۃ ریاسۃ عامۃ فی امور الدین والدنیا ونقض ھذا التعریف بالنبوۃ والاولی ان یقالھی خلافۃ الرسول فی اقامۃ الدین وحفظ حوزۃ الملۃ بحیث اتباعہ علی کافۃ الامۃ۔ ہمارے بعض علماء امامت کی یہ تعریف کی ہے کہ دین اور دنیا کی ریاست کو امامت کہتے ہیں، لیکن یہ تعریف نبوت پر بھی صادق آتی ہے، اس لیے اولیٰ یہ ہے کہ دین کے قائم کرنے اور ملت بیضاء کی حفاظت کرنے میں روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانشینی کو امامت کہتے ہیں، اس حیثیت سے کہ تمام امت مسلمہ پر اس اتباع واجب ہو۔ (شرح مواقف ص ٢٧٩، مطبع منشی نوالکثور، لکھنو)

شاہ ولی اللہ دہلوی خلافت عامہ کی تعریف میں لکھتے ہیں : ھی الریاسۃ المعامۃ فی التصدی لاقامۃ الدین بساحیاء العلوم الدینیۃ واقامۃ ارکان الاسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق بہ من ترتیب الحیوش والفرض للمقاتلۃ واعطانھم من الفی والقیام بالقضاء واقامۃ الحدود ورفع المظالم والامر سالمعروف والنھی عن المنکر نیابۃ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ علوم دینیہ کی ترویج اور اشاعت سے دین کو قائم کرنے، ارکان اسلام کو قائم کرنے، جہاد اور اس کے متعلق امور یعنی لشکروں کو ترتیب دینے، مجاہدین کے حصے مقرر کرنے اور مال غنیمت سے ان کو حصے دینے، قاضیوں کے تقرر کرنے، ظالموں کو سزادینے اور حدود قائم کرنے، نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے روکنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیابت سے روئے زمین کے تمام مسلمانوں کی امارت عامہ کو خلافت کہتے ہیں۔ (ازقۃ الخفاء ج ١ ص ٢، مطبوعہ سہیل اکیڈمی، لاہور، ١٣٩٦) پھر ریاست عامہ کی تفصیل کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن اور سنت کی تعلیم دیتے تھے اور وعظ و نصیحت کرتے تھے، جمعہ، عید اور پانچوں نمازوں کی جماعت کراتے تھے، ہر محلہ میں نماز کا امام مقرر کرتے تھے، مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین پر خرچ کرتے تھے، ہلال رمضان اور ہلال عید کی شہادت قبول کرتے اور اس کے مطابق رمضان اور عید کا اعلان فرماتے اور لشکر تیار کرتے، اس کا امیر مقرر فرماتے۔ لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ فرماتے، اسلامی شہروں میں قاضی مقرر کرکے بھیجتے، حدود قائم فرماتے، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ اور جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رفیق اعلیٰ سے واصل ہوگئے تب بھی دین کو اسی تفصیل کے ساتھ قائم کرنا واجب ہے اور دین کو اس تفصیل کے ساتھ قائم کرنا اس پر موقوف ہے کہ ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جائے جو ان احکام کو نافذ کرنے کا اہتمام کرے اور اپنے نائبین کو دیگر شہروں میں بھیجے اور ان کی کارگزاری سے باخبر رہے اور وہ نائبین اس کے احکام سے تجاوز نہ کریں اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کریں اور ایسا شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ اور آپ کا نائب مطلق ہوگا اور ہم نے جو خلافت کی تعریف میں کہا ہے کہ خلیفہ کو اقامت دین کے لیے ریاست عامہ حاصل ہو اس سے ہماری یہی مراد ہے۔ نیز ہم نے خلافت کی تعریف میں جو یہ کہا ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نائب ہو کر ریاست عامہ کا حامل ہو اس قید سے ہم نے نبوت سے احتراز کیا ہے، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) استقلالاً ریاست عامہ کے حامل ہوتے ہیں نیابۃ نہیں ہوتے۔ ہرچند کہ قرآن مجید میں حضرت دائود (علیہ السلام) کو خلیفہ فرمایا ہے لیکن اس سے خلافت الٰہیہ مراد ہے کیونکہ اللہ کا خلیفہ نبی ہوتا ہے اور ہماری بحث خلافت نبوت میں ہے، اسی لیے حضرت ابوبکر (رض) فرماتے تھے : مجھے اللہ کا خلیفہ نہ کہو، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ ہوں۔ (ازقۃ الخفاء، ج ١ ص ٣۔ ٢، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، ١٣٩٦ ھ) علامہ میر سید شریف جرجانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے جو خلافت کی تعریف کی ہے وہ امامت کبریٰ اور ریاست عامہ ہے جس میں امام اور خلیفہ روئے زمین کے تمام مسلمانوں کا فرمانروا اور تمام ممالک اسلامیہ کا امیر ہوتا ہے اور تمام امت مسلمہ پر اس کی اتباع واجب ہوتی ہے، خیال رہے کہ ممالک اسلامیہ میں سے ہر ملک کا سربراہ خلیفہ نہیں ہوتا اور نہ وہ امامت کبریٰ اور ریاست عامہ کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ ہم عنقریب انشاء اللہ بیان کریں گے۔

خلافت کی شرائط

علامہ ابوالحسن علی ماوردی متوفی ١١٧٦ ھ لکھتے ہیں : امامت کی اہلیت کے لیے سات شرطیں معتبر ہیں :

(١) عدالت اپنی جامع شرائط کے ساتھ موجود ہو (یعنی وہ شخص مسلمان ہو اور فرائض اور واجبات پر دائماً عمل کرتا ہو، سنن اور مستحبات پر بکثرت عمل کرتا ہو اور محرمات اور مکروہات تحریمیہ سے دائماً اجتناب کرتا ہو اور مکروہات تنزیہہ سے بکثرت بچتا ہو۔ سعیدی غفرلہ) ۔

(٢) اس کو اس قدر علم حاصل ہو جس سے وہ پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کرسکتا ہو۔

(٣) اس کے حواس سلامت ہوں، یعنی سماعت، بصارت اور گویائی پوری طرح کام کرتی ہو۔

(٤) اس کے اعضاء صحیح اور سلامت ہوں تاکہ وہ بخوبی کام کرسکے۔

(٥) وہ صاحب رائے ہو جس سے وہ ملک کے داخلی اور خارجی مسائل کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھا سکے۔

(٦) وہ شجاع اور بہادر ہو تاکہ ملت بیضاء کی حفاظت اور دشمنوں سے جہاد میں دلیری سے حصہ لے سکے۔

(٧) وہ شخص نسباً قریش ہو کیونکہ بکثرت احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔ (الاحکام السلطانیہ ص ٦، مطبعۃ المصطفیٰ البابی، مصر، ١٣٩٣ ھ)

علامہ تفتازانی متوفی ٩١ ھ نے ان شرتوں کے علاوہ کچھ مزید شرطیں بھی بیان کی ہیں اور وہ یہ ہیں :

(١) وہ شخص آزاد ہو، کیونکہ غلام اپنے مولیٰ کی خدمت میں مشغول رہتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں حقیر ہوتا ہے۔

(٢) وہ شخص مرد ہو، کیونکہ (حدیث صحیح کے مطابق) عورتیں ناقصات عقل اور ناقصات دین ہیں۔

(٣) وہ شخص عاقل اور بالغ ہو کیونکہ بچہ اور مجنون ملک اور عوام کی مصلحتوں کو سمجھنے اور ان میں تصرف کرنے سے قاصر ہے۔

(٤) خلیفہ کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ہے، کیونکہ خلفاء راشدین معصوم نہیں تھے۔

(٥) خلیفہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل ہو کیونکہ حضرت عمر (رض) نے انتخاب خلیفہ کے لیے چھ شخص مقرر کیے تھے اور ان میں بعض، بعض سے افضل تھے۔

علامہ تفتازانی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ خلیفہ فسق وفجور کے ارتکاب سے معزول ہونے کا مستحق نہیں ہوتا، کیونکہ خلفاء راشدین کے بعد ائمہ (خلفاء) اور حکام سے ظلم اور فسق ظاہر ہو اور صحابہ اور اخیار تابعین ان کی اطاعت کرتے تھے اور ان کی اجازت سے جمعہ اور عید کی نمازوں کو قائم کرتے تھے اور ان کے خلاف خروج (بغاوت) کرنے کو ناجائز کہتے تھے۔ (شرح عقائد ص ١١٠۔ ١٠٨، مکتبہ رحیمہ، دیوبند)

واضح رہے کہ یہ امام اور خلیفہ کی شرائط ہیں جو تمام ممالک اسلامیہ اور تمام عالم اسلام کا سربراہ ہوتا ہے، کسی ایک ملک کے سربراہ کے تقرر کے لیے یہ شرائط نہیں ہیں، ہمارے زمانے میں بعض ثقہ علماء نے بھی اس معاملہ میں دھوکا کھایا اور خلافت کبریٰ کی شرائط کو ایک ملک کی سربراہی پر محمول کیا اور مملکت پاکستان کی سربراہی کے لیے بھی قریشی ہونے کو لازمی شرط قرار دیا، حالانکہ قرشی ہونا تمام عالم اسلام کی سربراہی کے لیے شرت ہے، کسی ایک ملک کی سربراہی کے لیے قرشی ہونا شرط نہیں ہے۔

خلافت منعقد کرنے کے طریقے

شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں : خلافت کا انعقاد چار طریقوں سے ہوتا ہے :

(١) پہلا طریقہ یہ ہے کہ علماء، قضاۃ، امراء اور دیگر قابل ذکر لوگوں میں جو لوگ حل وعقد کے اہل ہوں وہ کسی ایسے شخص کو منتخب کرکے اس کی بیعت کرلیں جو شرائط خلافت کے مطابق ہو، اس کے لیے ان لوگوں کا بیعت کرنا ضروری ہے جو اس وقت میسر ہوں اور تمام ممالک اسلامیہ کے ارباب حل وعقد کا بیعت کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ عادۃً محال ہے اور ایک دو آدمیوں کا بیعت کرنا کافی نہیں، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی اس طریقہ سے بیعت کی گئی تھی۔

(٢) خلیفہ وقت کسی ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کردے جو شرائط خلافت کے مطابق ہو اور لوگوں کو جمع کرکے اس کو خلیفہ بنانے کی تصریح کردے اور لوگوں کو اس کی اتباع کی وصیت کردے اور قوم پر اس شخص کو خلیفہ بنانا لازم ہے، حضرت عمر فاروق (رض) کی خلافت اسی طریقہ سے ثابت ہے۔

(٣) تیسرا طریقہ شوریٰ کا ہے یعنی خلیفہ چند اہل لوگوں کی ایک جماعت کو منتخب کرے اور یہ کہے کہ اس جماعت میں سے جس فرد کو بھی منتخب کرلیا جائے وہ خلیفہ ہوگا۔ یعنی خلیفہ وقت کی موت کے بعد لوگ مشورہ کریں اور کسی ایک کو خلافت کے لیے معین کریں، حضرت عثمان (رض) کا انتخاب اسی طرح ہوا تھا، حضرت عمر (رض) نے انتخاب خلافت کے لیے چھ افراد کا اعلان کردیا تھا اور ان چھ افراد نے یہ معاملہ حضرت عبدالرحمان بن عوف کے سپرد کردیا تھا اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) کو منتخب کرلیا۔

(٤) چوتھا طریقہ غلبہ کا ہے یعنی ایک شخص بغیر بیعت کے اور بغیر کسی کے خلیفہ بنانے کے از خود خلافت پر قابض ہوجائے اور تمام لوگوں کو تالیف قلوب یا جبر اور طاقت کے ذریعے اپنا تابع کرلے، اس طرح بھی خلافت منعقد ہوجاتی ہے اور لوگوں پر اس کے احکام کی اطاعت لازم ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ احکام خلاف شرع نہ ہو اور اس کی (یعنی متغلب کی) پھر دو قسمیں ہیں :

(ا) متغلب ایسا شخص ہو جو شرائط خلافت کے مطابق ہو اور وہ صلح او حسن تدبیر سے اپنے مخالفین کو تابع کرے اور اس کے لیے کسی امر حرام کا ارتکاب نہ کرے، خلافت کی یہ قسم جائز ہے اور اس میں رخصت ہے۔ حضرت علی (رض) کی شہادت اور حضرت حسن (رض) سے صلح کے بعد امیر معاویہ بن ابی سفیان (رض) کی خلافت اسی قسم کی تھی۔

(ب) متغلب شرائط خلافت کے مطابق نہ ہو اور محرمات کا ارتکاب کرکے اور بزور جنگ لوگوں کو تابع کرے۔ خلافت کی یہ قسم جائز نہیں ہے اور اس کا مرتکب گنہگار ہے، لیکن اگر اس کے احکام شریعت کے مطابق ہوں تو ان کو قبول کرنا واجب ہے اور اگر مال دار لوگ اس کے کارندوں کو زکوٰۃ دیں تو ان سے زکوٰۃ ساقت ہوجائے گی اور اس کے مقرر کردہ قاضیوں کے فیصلے نافذ ہوں گے اور اس کی معیت میں جہاد کرنا جائز ہوگا، اس خلافت کو منعقد قرار دینا ضرورت کی بناء پر ہے، کیونکہ اس کے معزول کرنے کو اگر ضروری قرار دیا جائے تو اس سے قتل و غارت اور خونریزی ہوگی اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ بسیار قتل و غارت کے بعد اگر اس کو معزول کر بھی دیا جائے تو دوسرا متغلب شرائط خلافت کا اہل ہوگا، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرا متغلب پہلے متغلب سے زیادہ بُرا ہو، اس لیے اس کو معزول کرنے میں فتنہ اور فساد یقینی ہے اور خیر اور اصلاح کا حصول موہوم ہے، عبدالملک بن مروان اور خلفاء عباسیہ میں سے اوائل کی خلافت اسی قسم کی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یا چند اشخاص کی جماعت اپنے زمانہ میں خلافت کی شرائط کے حامل ہوں یا ایک شخص سب سے افضل ہو تب بھی اس کی خلافت اس وقت تک منعقد نہیں ہوگی جب تک اس کی بیعت نہ کرلی جائے یا وہ غلبہ سے حکومت حاصل نہ کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفیقِ اعلیٰ کی طرف منتقل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر (رض) کے ہاتھ پر بیعت کی اور فقط ان کے افضل ہونے پر اکتفاء نہیں کی۔ اہل علم نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ حضرت علی (رض) کی خلافت ان طریقوں میں سے کسی طریقہ سے منعقد ہوئی ہے ؟ اکثر علماء کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ منورہ میں جو مہاجرین اور انصار موجود تھے انہوں نے حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ حضرت علی (رض) شوریٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں خلیفہ منتخب ہوئے، کیونکہ شوریٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ خلیفہ یا عثمان ہوں گے یا علی اور جب حضرت عثمان (رض) کا انتقال ہوگیا تو حضرت علی (رض) خلافت کے لیے متعین ہوگئے لیکن یہ تاویل صحیح نہیں ہے۔ (ازالۃ الخفاء ج ١ ص ٦۔ ٥، لاہور)

خلیفہ کو منتخب کرنے والوں کے لیے شرائط

علامہ ابوالحسن ماوردی نے خلیفہ کو منتخب کرنے والوں کے لیے بھی تین شرطیں مقرر کی ہیں :

(١) انتخاب کرنے والے عادل ہوں (یعنی فرائض وغیرہ پر دائمی عمل کرنے والے محرمات سے دائماً بچنے والے۔ سعید غفرلہ)

(٢) ان کو اس قدر علم ہو کہ استحقاق خلافت کی کیا شرائط ہیں اور کون شخص منصب کا اہل ہے اور کون نہیں۔

(٣) وہ صحیح رائے اور حسن تدبیر کے حامل ہوں تاکہ وہ صحیح تر اور موزوں تر شخص کو منتخب کرسکیں۔ (الاحکام السلطانیہ ص ٦، مصر، ١٣٩٣)

موجودہ مغربی جمہوریت اور اسلامی ریاست کا فرق

موجودہ مغربی جمہوریت اور اسلامی ریاست کے درمیان کئی وجہ سے فرق ہے جس کو ہم یہاں اختصار سے بیان کررہے ہیں :

(١) مغربی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، جب کہ اسلام میں اقتدار اور حاکمیت صرف اللہ کی ہے، سربراہ مملکت صرف اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام نافذ کرنے کا مجاز ہے۔

(٢) مغربی جمہوریت میں قانون وضع کرنے کی اتھارٹی اور معیار ” اکثریت “ ہے اور اسلام میں معیار ” حق “ ہے جس کا فیصلہ امام اور مستند علماء کتاب، سنت، اجماع اور اقوال مجتہدین کی روشنی میں کریں گے۔

(٣) مغربی جمہوریت میں مدت انتخاب پوری ہونے کے بعد یا اس سے پہلے اکثریت کے فیصلہ کی بناء پر سربراہ مملکت کو معزول کیا جاسکتا ہے، اس کے برخلاف اسلام میں سربرہ مملکت اس وقت تک اپنے عہدے پر قائم رہے گا جب تک وہ اسلام پر قائم ہے۔

(٤) جمہوری طریقہ انتخاب میں عہدہ دار کو منتخب کرنے کے لئے کوئی معیار نہیں اور ہر کس وناکس کو ووٹ دینے کا حق ہے جب کہ اسلام میں یہ حق صرف ارباب حل وعقد کو حاصل ہے۔

(٥) جمہوری طریقہ انتخاب میں عہدہ کے امیدوار کے لیے کوئی معیار نہیں ہے۔ تعلیمی اہلیت اور صالحیت کی کوئی شرت نہیں ہے جس کے نتیجہ میں عورت ہو یا مرد، پڑھا لکھا ہو یا جاہل، نیک ہو یا بدمعاش، پیسے اور اثر ورسوخ کے زور پر اسمبلی میں پہنچ کر قانون ساز اتھارٹی کا ممبر بن جاتا ہے، اسی طرح وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے لیے بھی کوئی معیار نہیں ہے اور قومی اسمبلی میں پہنچنے والا ہر ممبر وزارتِ عظمیٰ کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے، دفتر میں کلرک بھرتی ہونے کے لیے بھی کم از کم میٹرک پاس ہونے کا معیار ہے اور ملک کے اتنے بڑے عہدے کے لیے کوئی معیار نہیں رکھا گیا، اس کے برخلاف اسلام میں سربراہ مملکت کے لیے شرائط مقرر کی گئی ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔

(٦) مغربی جمہوریت کے طریقہ انتخاب میں امیدوار اپنے آپ کو منصب کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے کنویسنگ کرتا ہے جب کہ اسلام میں منصب کو طلب کرنا جائز نہیں ہے، اس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ ابواب میں آئے گی۔

ہر چند کہ مغربی جمہوریت اور اس کا طریقہ ٔ انتخاب متعدد وجوہ سے اسلامی احکام کے خلاف ہے، لیکن اگر اس طریقہ سے کوئی شخص منتخب ہو کر حکمران بن جاتا ہے تو اس کی حکومت صحیح ہوگی جس طرح متغلب کی حکومت صحیح ہوتی ہے اور اس کے جو احکام شریعت کے خلاف نہ ہوں ان میں اس کی اطاعت لازم ہوگی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 26