پڑوسی وراثت کا حقدار

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبیٔ محترم ﷺ نے فرمایا : مجھے جبرئیل علیہ السلام پڑوسی کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں گمان کیا کہ وہ اسے وراثت میں شریک کر دیں گے۔ (بخاری و مسلم )

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! مذکورہ حدیث شریف سے پڑوسی کے حق کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاکید کرنے والے جبرئیل امین اور جن کو تاکید کی جارہی ہے وہ رحمۃ للعلمین ﷺ اور گمان کرنے والے جہاں میں سب سے زیادہ عقلمند اور گمان ہو رہا ہے وراثت میں شریک کرنے کا یعنی جس طرح مال و سلوک میں اہل و عیال اور رشتہ داروں کا حق موجود ہے نیز عدم ادائیگی پر پرسش ہوگی ایسے ہی تاکید سے سرکا ر ﷺ نے گمان فرمایا کہ شاید پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے اور ان کی پریشانی پر توجہ نہ دینے پر پر سش ہو ؟ میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! پڑوسی کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو صحیح طور پرپڑوسی سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضوراکی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ

حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہیکہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا اور ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا۔ انہوں نے اپنے غلام سے فرمایا اے غلام ! جب اس کا م سے فارغ ہو جانا تو سب سے پہلے اس کا گوشت ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا، کہا کیا آپ یہودی کو ہدیہ دلا رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ کی اصلاح فرمائے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ بلا شبہ میں نے نبیٔ کریم ﷺ کو پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم ڈر گئے کہ اس کو عنقریب وارث ہی بنا دیا جائے گا۔ (الادب المفرد)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہودی پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا گیا ہے اور ایک جلیل القدر صحابی یہودی کے گھرگوشت بھیجنے کی تاکید فرمارہے ہیں جس سے موجودیہودی خودمتعجب ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی تمھارے پڑوس میں رہ کر حسن سلوک کے حقدار ہیں تو قربان جائیے صحابئی رسول کی عظمت پر کہ اپنے آقاﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے بلکہ بر جستہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پڑوسی کے حوالے سے رسول اعظم ﷺ نے اتنی تاکید فرما ئی ہے کہ ہم ڈرنے لگے کہ عنقریب وارث بنا دیا جائے گا۔ ہمارے حسن سلوک کی وجہ، رسول اکرمﷺ کی تاکید ہے۔

کس قدر سچا عشق تھا! صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے آقاﷺ سے کہ وہ نہ دوست دیکھتے نہ دشمن، نہ نفع، نہ نقصان بس ان کی تمنا تو یہی تھی کہ اپنے آقا ﷺ کے فرمان پر عمل کرنا اور سرکار ﷺ کی رضا کو حاصل کرنا، آج ہم مسلم پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرپاتے ہیں تو غیروں کے ساتھ کیا کریں گے ؟آئو دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہم سب کوصحابئہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا صدقہ عطا فرمائے۔

آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ