أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاذۡكُرۡ عِبٰدَنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ اُولِى الۡاَيۡدِىۡ وَالۡاَبۡصَارِ ۞

ترجمہ:

اور ہمارے (دیگر خاص) بندوں کو یاد کیجئے، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو جو قوت والے اور بصیرت والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور ہمارے (دیگر خاص) بندوں کو یاد کیجئے، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو جو قوت والے اور بصیرت والے ہیں ہم نے ان کو خالص آخرت کی یاد کے ساتھ چن لیا تھا بیشک وہ ہمارے نزدیک چنے ہوئے اور نیک ترین ہیں اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو یاد کیجئے اور یہ سب نیک ترین ہیں (ص ٓ: ٤٨۔ ٤٥ )

مشکل حالات میں انبیاء (علیہم السلام) کی استقامت یاد دلا کر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ……کو صبر کی تلقین فرمانا

ص ٓ: ٤ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر، کذاب (جادوگر، جھوٹا) کہتے ہیں، ص : ٧ میں فرمایا : یہ لوگ کہتے ہیں : ایسا پیغام ہم نے پچھلے دینوں میں نہیں سنا، یہ محض ان کی من گھڑت بات ہے، صٓ : ٨ میں فرمایا : کیا ہم میں سے صرف ان کو اس پیغام کے پہنچانے کے لیے خاص کرلیا گیا ہے۔ ص ٓ: ١٧ میں فرمایا : آپ ان کی دل آزار باتوں پر صبر کیجئے، پھر ص ٓ: ٢٩ تک حضرت دائود (علیہ السلام) کا مفصل قصہ بیان فرمایا کہ ان کو کس قدر سنگین حالات پیش آئے اور انہوں نے صبر کیا اور استقامت کے ساتھ دین کی تبلیغ میں مصروف رہے، سو آپ بھی اس طرح کیجئے، پھر ص ٓ: ٣٠ سے ص ٓ ٤٠ تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا، ان کو بھی سخت آزمائش سے گزرنا پڑا، سو آپ بھی صبر و سکون کے ساتھ اپنے مشن کو پورا کرتے رہیں، پھر ص ٓ: ٤١ سے ص ٓ: ٤٤ تک حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا کہ ان پر بھی سخت آزمائش کا دور آیا اور وہ کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزر گئے، سو آپ بھی کفار مکہ کی دل آزار باتوں سے نہ گھبرائیں اور تن دہی اور سرگرمی کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہیں، اسی طرح اب ص ٓ: ٤٥ میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا کہ آپ حضرت ابراہیم کا صبر یاد کیجئے کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا، حضرت اسحاق کا صبر یاد کیجئے اور حضرت یعقوب کا صبر یاد کیجئے جب ان کے بیٹے حضرت یوسف (علیہ السلام) گم ہوگئے تھے اور انہوں نے اس پر صبر کیا۔

امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح لکھا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٠٠) حالانکہ الصّٰفّٰت : ١٠٧ کی تفسیر میں انہوں نے اس قول کا رد کیا تھا، علامہ قرطبی اور بعض دیگر مفسرین کا بھی یہ مختار ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ذبیح ہیں، انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

اس آیت سے ان علماء نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسحاق ہیں نہ کہ حضرت اسماعیل (علیہما السلام) اور یہی قول صحیح ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ” الاعلام بمولد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ میں بیان کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ١٩٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ) ہم الصّٰفّٰت : ١٠٧ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دینا یہودیوں کا قول ہے، اس کی تفصیل اور اس قول کا ردہم وہاں کرچکے ہیں۔ اس آیت میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ ” اولی الایدی والابصار “ تھے یعنی ہاتھوں اور آنکھوں والے، ہاتھوں اور آنکھوں کا خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ انسان اکثر کام ہاتھوں سے انجام دیتا ہے اور آنکھوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ معلومات کے حصول کا سب سے قوی ذریعہ ہے اور انسان کی دو قوتیں ہیں : قوت عاملہ اور قوت عاقلہ، قوت عاملہ کا سب سے افضل عمل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور قوت عاقلہ کا سب سے افضل عمل ادراک، اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے اور قوت عاملہ اور قوت عاقلہ کے جو کام ان کے مساوا ہیں وہ ان کے مقابلہ میں قابل ذکر نہیں ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 45