أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغۡوِيَنَّهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اس نے کہا : پس تیری عزت کی قسم ! میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا

ص ٓ: ٨٣۔ ٨٢ میں فرمایا : اس نے کہا :” پس تیری عزت کی قسم ! میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا سوا ان کے جو ان میں سے تیرے مخلص بندے ہیں “ اگر ابلیس چاہتا تو مطلقاً یوں کہہ دیتا :“ میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا، اور اگر وہ ایسا کہتا تو اس کا یہ قول جھوٹ ہوجاتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں مثلاً انبیاء (علیہم السلام) کو وہ گمراہ نہیں کرسکتا تھا، اس لیے اس نے جھوٹ سے بچنے کے لیے یہ استثناء کیا اور کہا : میں تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں گا۔ اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جھوٹ ایسی برائی ہے کہ شیطان بھی اس سے بچنا چاہتا ہے، تو پھر انسان کو بلکہ مسلمان کو تو اس سے بہت زیادہ بچنا چاہیے۔ اس آیت میں مخلص بندوں کا ذکر ہے، مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) بندے وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے خالص کرلیا اور ان کو گمراہی سے محفوظ رکھا اور اگر مخلص میں لام پر زیر ہو تو اس کا معنی ہے : اللہ کے وہ بندے جنہوں نے اپنے دلوں کو اور اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرلیا اور اس میں ریاکاری کا شائبہ بھی نہیں ہونے دیا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ مخلص بندے وہ ہیں جو دل سے اللہ کو یاد کرتے ہیں، ان کے ذکر پر فرشتے بھی مطلع نہیں ہوتے کہ اس کو لکھ سکیں اور نہ شیطان اس پر مطلع ہوتا ہے کہ اس کو فاسد کرسکے، شیطان ان کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ اس کے شر سے مطلقاً محفوظ ہوتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 82