أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنۡذِرٌ ‌‌ۖ وَّمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‌ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ میں تو صرف اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

آپ کہیے کہ میں تو صرف اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے وہ آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے، بےحد عزت والا اور بہت بخشنے والا ہے (ص ٓ: ٦٦۔ ٦٥ )

آیات سابقہ سے ارتباط

اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کو توحید اور رسالت کی دعوت دی اور یہ فرمایا کہ قیامت برحق ہے تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کا مذاق اڑایا اور آپ کو جادوگر اور جھوٹا کہا اور کہا : ہم نے اس سے پہلے یہ بات کسی دین میں نہیں سنی، یہ محض ان کی من گھڑت بات ہے، نیز یہ کہا کہ کیا ہم میں سے صرف ان ہی پر وحی نازل کی گئی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دل آزار باتوں سے رنج پہنچتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے رنج کو زائل کرنے کے لیے اور آپ کو تسلی دینے کے لیے انبیاء سابقین کے واقعات آپ پر نازل کیے اور اس لیے بھی کہ کفار کو ان واقعات سے یہ اندازہ ہو کہ آپ نے کسی عالم کی شاگردی نہیں کی، کسی مکتب میں نہیں گئے، کسی کتاب کو نہیں پڑھا، پھر آپ نے انبیاء سابقین کے یہ واقعات ٹھیک ٹھیک بیان کردیئے ہیں تو سوائے اللہ کی وحی کے آپ کے پاس علم کا اور کون سا ذریعہ تھا ؟ ہوسکتا ہے یہ سوچ کر وہ اپنے کفر اور شرک سے باز آجائیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے اخروی ثواب کو اور کفار کے اخروی عذاب کو بیان فرمایا تاکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اخروی عذاب سے ڈر کر یا اخروی ثواب کی طمع میں ایمان لے آئیں۔ اس بیان کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان ہی مطالب اور مقاصد کو دہرایا جن کو اوّل سورت میں بیان فرمایا تھا اور توحید، رسالت اور وقوع قیامت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور فرمایا کہ آپ کہیے کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں، یعنی جو شخص اللہ کی توحید، میری رسالت اور وقوع قیامت کا انکار کرے گا میں اس کو بتائوں گا کہ ایسے منکروں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی قسم کا عذاب پہنچائے گا اور فرمایا : اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے۔

اللہ تعالیٰ کے غالب ہونے سے اس کی توحید پر استدلال

اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر یہ دلیل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہو جو علم اور قدرت میں اس کے مساوی ہو اور وہ غالب اور قاہر ہو تو فرض کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی وقت اس کا شریک یہ چاہتا ہے کہ اس چیز کو پیدا نہ کیا جائے تو اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دونوں کا چاہا ہوا پورا ہوجائے، بیک وقت وہ چیز ہو اور نہ ہو، اس لیے لامحالہ کسی ایک کا چاہا ہواپورا ہوگا، یا اللہ کا یا اس کے شریک کا اور جس کا چاہا ہوا پورا ہوگا وہی غالب ہوگا اور دوسرا مغلوب ہوگا، پس یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کا کوئی شریک ہو، جو علم اور قدرت میں اس کے مساوی ہو اور سب پر غالب ہو، نیز ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اللہ تو سب پر غالب اور قاہر ہے، اب اس کا شریک بھی سب پر غالب اور قاہر ہے یا نہیں، اگر وہ سب پر غالب ہے تو اللہ پر بھی غالب ہے یا نہیں، اگر وہ اللہ پر غالب نہیں ہے تو سب پر غالب نہیں ہے اور اللہ کا مساوی نہیں ہے اور اگر وہ اللہ پر بھی غالب ہے تو اللہ مغلوب ہوگا اور غالب نہیں ہوگا اور جو مغلوب ہو وہ خدا اور سارے جہان کا خالق نہیں ہوسکتا، اس سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ خدا نہ رہے اور سارے جہان کا خالق اور مالک نہ ہو، حالانکہ مشرکین بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سارے جہانوں کا خالق اور مالک ہے اور وہ سب پر غالب ہے اور اللہ تعالیٰ کا سب پر غالب ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہ ہو، جو علم اور قدرت میں اس کے مساوی ہو اور سب پر قاہر اور غالب ہو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 65