أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَا لِلّٰهِ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ‌ ۘ مَا نَعۡبُدُهُمۡ اِلَّا لِيُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلۡفٰى ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ فِىۡ مَا هُمۡ فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ ۞

ترجمہ:

سنو ! خالص اطاعت اللہ ہی کے لیے ہے، اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کار ساز بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں، بیشک اللہ ان کے درمیان اس کا فیصلہ فرمادے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں، بیشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور بہت ناشکرا ہو

جاہل صوفیاء کے خود ساختہ احکام کا رد

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”(وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔ “ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کار ساز اور حاجت روا بنایا ہوا ہے اور وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے ان معبودوں سے یہ کہتے تھے کہ ہم تمہاری صرف اس لیے پرستش کرتے ہیں کہ تم ہمیں اللہ کا مقرب بنادو۔ مجاہد اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ قریش بتوں کے لیے ایسا کہتے تھے اور ان سے پہلے کے کفار فرشتوں کے لیے، حضرت عزیز کے لیے اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے لیے ایسا کہتے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣١٢٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حافظ سیوطی نے امام ابن جریر کے حوالے سے لکھا ہے کہ عرب کے تین قبیلے : عامر، کنانہ اور بنو سلمہ بتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور وہ کہتے تھے کہ ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔ (الدرا المنثور ج ٧ ص ١٨٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” بیشک اللہ ان کے درمیان اس کا فیصلہ فرمادے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں، بیشک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور بہت ناشکرا ہو “ انسان کی فطرت میں اپنے صانع اور خالق کی معرفت رکھی گئی ہے اور اس کائنات کے خالق کی عبادت کرنا بھی اس کی طبیعت کا تقاضا ہے لیکن اس فطری معرفت اور عبادت کا اعتبار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس معرفت اور عبادت کا اعتبار ہے جو بندوں تک نبیوں اور رسولوں کے واسطے سے پہنچی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعہ جو احکام بندوں تک پہنچائے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی وہ اطاعت اور عبادت مطلوب ہے جو شریعت کے موافق ہو خواہ وہ طبیعت کے مخالف ہو، شیطان کی طبیعت میں اللہ کو سجدہ کرنا راسخ تھا اور حضرت آدم کو سجدہ کرنا اس کی طبیعت کے خلاف تھا، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے تو یہی سجدہ اس کے لیے عبادت تھا، اس نے اپنی طبیعت کے تقاضے کے خلاف سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو وہ کافر ہوگیا، اسی طرح جو عل والے عقلی دلائل سے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور انبیاء علہیم السلام کی متابعت نہیں کرتے، ان کی معرفت اور اطاعت بھی معتبر نہیں ہے، اسی طرح جو اپنی عقل سے حضرت عزیر کی، حضرت عیسیٰ کی اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور جو بتوں کی پرستش کرتے تھے ان میں سے کسی کی پرستش اور عبادت معتبر نہیں ہے خواہ وہ اس کے جائز اور معقول ہونے کی کتنی ہی تاویلات کیوں نہ کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” اللہ ان کے درمیان فیصلہ کردے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں۔ “ اسی طرح ہمارے دور میں جاہل صوفیاء نے اللہ تعالیٰ سے تقرب کے حصول کے متعدد طریقے اپنی طرف سے بنالیے ہیں اور احکام شرعیہ میں من مانے اضافے کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے اپنی پناہ میں رکھے، اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا صحیح ذریعہ وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بیان کیا اور ائمہ اور مجتہدین نے اس سے احکام شرعیہ کو منضبط کیا اور ہر دور میں اہل علم اور ارباب فتویٰ نے عصری تقاضوں اور نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل بتلایا۔

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 3