أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ اجۡتَنَـبُـوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ يَّعۡبُدُوۡهَا وَاَنَابُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الۡبُشۡرٰى‌ ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ ۞

ترجمہ:

اور جن لوگوں نے بتوں کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان ہی کے لیے بشارت ہے، سو آپ میرے بندوں کو بشارت دیجئے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور جن لوگوں نے بتوں کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان ہی کے لیے بشارت ہے، سو آپ میرے بندوں کو بشارت دیجئے جو غور سے بات سنتے ہیں، پھر احسن بات کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت پر جما رکھا ہے اور یہی عقل والے ہیں جس کے متعلق عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے کیا آپ اس کو دوزخ سے چھڑالیں گے ؟ لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے (جنت میں) بالا خانے ہیں، ان کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں، ان کے نیچے سے دریا جاری ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا (الزمر : ٢١۔ ١٧)

طاغوت کا معنیٰ اور مصداق

اس آت میں طاغوت کا لفظ ہے، یہ لفظ طغی سے بنا ہے، اس کا مصدر طغیان ہے۔ علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : قرآن مجید میں ہے : ” انہ طغی “ (طٰہٰ : ٢٤) فرعون نے سرکشی کی ہے “ “ ان الانسان لیطغی “ (العلق : ٦) بیشک انسان ضرور سرکشی کرتا ہے۔ طغیان کا معنی ہے : نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا، طاغوت مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے : حد سے تجاوز کرنے والا اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر کیا جاتا ہے جس کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جائے، ساحر، کاہن، سرکش جن اور نیک راستہ سے روکنے والے کو طاغوت کہا جاتا ہے، اس وزن پر اور بھی مبالغے کے صیغے ہیں جیسے جبروت اور ملکوت وغیرہ۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٩٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨) اس میں ” تا “ زیادہ مبالغہ کے لیے ہے، رحموت کا معنی ہے : رحمت واسعہ اور ملکوت کا معنی ہے : بہت بڑا ملک اور جبروت کا معنی ہے : بہت بڑا جبر۔ علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :

علامہ مجد الدین فیروز آبادی متوفی ٠٧ (رض) ٨١ ھ نے کہا ہے کہ طاغوت کی تفسیر میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ لات اور عزیٰ طاغوت ہیں، عکرمہ اور زجاج نے کہا ہے کہ کاہن اور ساحر طاغوت ہیں، ابوالعالیہ، شعبی، عطاء اور مجاہد وغیرہ نے کہا ہے کہ طاغوت شیطان ہے۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ سرکش جن طاغوت ہے۔ جوہری نے کہا ہے کہ گمراہ کرنے والوں کا رئیس طاغوت ہے۔ اخفش نے کہا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اصنام (بت) طاغوت ہیں۔ زجاج نے کہا : طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ (تاج العروس ج ١٠ ص ٢٢٥، دراحیاء التراث العربی، بیروت)

امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں طاغوت سے مراد شیطان ہے یابت ہیں، اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شیطان ہے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کفار شیطان کی عبادت نہیں کرتے تھے، وہ تو بتوں کی عبادت کرتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی دعوت شیطان نے دی تھی تو بتوں کی عبادت کرنا دراصل شیطان ہی کی عبادت کرنا ہے۔ تواریخ میں مذجکور ہے کہ بتوں کی عبادت کی اصل یہ ہے کہ وہ لوگ مشتبہ تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ الہٰ نور عظیم ہے اور فرشتوں میں چھوٹے اور بڑے مختلف انوار ہیں، پھر انہوں نے اپنے خیالات کے مطابق ان انوار کے مختلف صورتوں میں مجسمے بنالیے، وہ ان مجسموں کی عبادت کرتے تھے اور اپنے اعتقاد میں اللہ کی اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٣٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اس کا بیان کہ بشارت کس نعمت کی ہے، کون بشارت دے گا، کب دے گا اور کس کو دے گا ؟

الزمر : ١٧ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور جن لوگوں نے بتوں کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان ہی کے لیے بشارت ہے، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ فکر کرنے سے اجتناب کیا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور تمام معاملات میں اس کی اطاعت کی اور اسی کی عبادت کی، ان ہی کے لیے بشارت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ بشاری موت کے وقت حاصل ہوتی ہے یا اس وقت حاصل ہوتی ہے جب بندہ کو قبر میں رکھا جاتا ہے یا میدان محشر میں حاصل ہوتی ہے یا اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک فریق کو جنت میں جانے کا حکم دیا جاتا ہے اور دوسرے فریق کو دوزخ میں جانے کا حکم دیا جاتا ہے، یا اس وقت حاصل ہوتی ہے جب مؤمنوں کو جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس بشارت میں مسلمانوں کو دائمی فوز و فلاح اور خوشی اور راحت کی بشارت دی جاتی ہے۔ قرآن مجید کے درج ذیل آیتوں میں اس بشارت کا تفصیل سے ذکر ہے :

ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشرو بالجنۃ التی کتم توعدون نحن اولیئوکم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ ج ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون نزل من غفور رحیم (حم السجدۃ : ٣٢۔ ٣٠)

بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹے رہے، ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں : نہ تم خوف زدہ ہونا نہ غمگین ہونا، تمہیں اس جنت کی بشات ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ہم دنیا میں بھی تمہارے مددگار تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب ہوگا جس کی تم خواہش کروں گے اور جس کو تم طلب کرو گے یہ بہت بخشنے والے بےحد مہربان کی طرف سے مہمانی ہے ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ یہ بشارت دینے والے فرشتے ہیں اور حسب ذیل آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بشارت موت کے وقت حاصل ہوگی یا جنت میں :

الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین لا یقولن سلم علیکم لا ادخلوالجنۃ بما کنتم تعملون (النحل : ٣٢)

جن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کو وہ پاکیزہ ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں : تم پر سلام ہو، تم جو (دنیا میں) نیک اعمال کرتے تھے ان کے عوض جنت میں داخل ہوجائو اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو جنت میں بھی بشارت دی جائے گی :

والذین صبروا ابتغاء وجہ ربہم واقامو الصلوٰۃ وانفقوا مما رزقنھم سراء واعلانیۃ ویدرء ون بالحسنۃ السیئۃ اولئک لھم عقبی الدار جنت عدن یدخلونھا ومن صلح من اباء ھم وازواجھم وذری یتھم والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار (الرعد : ٢٤۔ ٢٢ )

اور جو لوگ اپنے رب کی رضا کی طلب کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر طور پر خرچ کرتے ہیں اور بُرائی کو نیکی سے دور کرتے ہیں ان ہی کے لیے آخرت کا گھر ہے دائمی جنتیں ہیں، جن میں وہ خود داخل ہوں گے اور ان کے آباء اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں گے اور فرشتے ان کے پاس جنت کے ہر دروازہ سے یہ کہتے ہوئے آئیں گے تم پر سلام ہو کیونکہ تم نے صبر کیا، پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے الزمر : ١٧ میں فرمایا ہے : ” جن لوگوں نے بتوں کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان ہی کے لیے بشارت ہے۔ “ اور الرعد : ٢٢ میں فرمایا ہے : ” یہ بشارت ان کو حاصل ہوگی جو اللہ کی رضا کی طلب کے لیے گناہوں سے اجتناب اور عبادت کی مشقت پر صبر کریں گے، ہمیشہ نماز پڑھیں گے، پوشیدہ اور ظاہر صدقہ و خیرات دیں گے اور بُرائی کا بدلہ نیکی سے دیں گے “ اور الزمر میں جو اجمال ہے یہ اس کی تفصیل ہے یعنی الزمر میں جو بتوں سے اجتناب کا ذکر ہے اس سے مراد ہے : خواہشات نفسانیہ کے بتوں کی اطاعت سے کلیتاً اجتناب کرنا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے مراد ہے : تمام احکام شرعیہ پر عمل کرکے اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے اس حصہ میں جس بشارت کا ذکر کیا گیا ہے وہ بشارت دینے والے فرشتے ہیں اور وہ جنت کی دائمی نعمتوں کی بشارت دیں گے اور فرشتے یہ بشارت روح قبض کرتے وقت دیں گے اور یہ بشارت مؤمنین کا ملین کو دی جائے گی جو باطل عقائد اور حرام کاموں سے اجتناب کریں گے اور فرائض، واجبات اور سنن پر عمل کریں گے۔ الزمر : ١٨ میں فرمایا : ” جو غور سے بات سنتے ہیں، پھر احسن بات کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت پر جمارکھا ہے اور یہی عقل والے ہیں “

باب عقائد میں باطل نظریات کو ترک کرکے برحق نظریات کو اپنانا

اس سے مراد وہ بندے ہیں جو بتوں کی عبادت سے اجتناب کرتے ہیں اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ بتوں سے مراد عام ہے، خواہ ظاہری بت ہوں یا باطنی بت ہوں، انسان نے باطل اور ناجائز خواہشات اپنے سینہ میں چھپا رکھی ہیں جن کی وہ پرستش کرتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف جن خواہشوں کی اطاعت کرتا ہے وہ بھی طاغوت اور بت ہیں، قرآن مجید میں ہے :

ارء یت من اتخذالھہ ھو نہ ط افانت تکون علیہ وکیلا (الفرقان : ٤٣) آپ بتائیے کہ جس شخص نے اپنی خواہشوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟ سو جو شخص عقائد، معاملات اور عبادات میں خواہشات نفسانیہ سے اجتناب کرے گا اور عقل اور نظر صحیح سے کام لے کر عقائد صحیحہ کو اپنائے گا، وہ عقائد میں صحیح اور درست نظریہ کو اپنائے گا اور غلط اور باطل نظریہ کو ترک کردے گا، اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ بغیر کسی موجد کے اس جہان کو خود پیدا شدہ ماننا غلط اور باطل ہے اور صحیح نظر یہ یہ ہے کہ اس جہان کا کوئی موجد ہے، پھر اس جہان کے متعدد موجدماننا غلط اور باطل ہے صحیح نظریہ یہ ہے کہ اس جہان کا موجد واحد ہے اور اللہ کا کوئی بیٹا یا بیوی ماننا غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ بیٹے اور بیوی اور ہر حاجت، ہر عیب اور ہر نقص سے مجرد اور پاک ہے اور اللہ کو مجبور اور معطل ماننا باطل ہے، وہ قادر ہے اور مختار ہے، رسولوں کی بعثت کا انکار کرنا غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ رسولوں کو بھیجنے والا ہے۔ اس طرح قیامت تک رسولوں کی بعثت کا سلسلہ جاری ماننا غلط اور باطل ہے اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے بعثت کا سلسلہ منقطع کردیا اور آپ پر نبوت کو ختم کردیا۔

معاملات اور عبادات میں صحیح افعال اور احسن افعال

اور احکام شرعیہ میں بعض اعمال صحیح اور حسن ہوتے ہیں اور بعض اعمال اصح اور احسن ہوتے ہیں، سو جو شخص عقل اور نظر صحیح سے کام لے گا وہ صحیح اور حسن کے مقابلہ میں اصح اور احسن پر عمل کرے گا اور اس آیت میں احسن افعال کی اتباع کی تحسین کی ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنے مقتول کا قصاص لیا اور قاتل کو قتل کردیا تو یہ صحیح ہے اور احسن یہ ہے کہ وہ اپنے قاتل کو معاف کردے، اسی طرح بُرائی کے بدلہ میں اتنی ہی بُرائی کرنا صحیح ہے اور بُرا سلوک کرنے والے کو معاف کردینا اور اس سے جواب میں نیک سلوک کرنا احسن ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

وجزائوا سیئۃ سیتۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ ط انہ لایحب الظلمین (الشوریٰ : ٤٠ )

بُرائی کا بدلہ اتنی ہی بُرائی ہے، پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، بیشک اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ولمن صبرو غفر ان ذلک لمن عزم الامور (الشوریٰ : ٤٣ )

اور جس شخص نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بیشک یہ ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے

ہم نے بیان کیا ہے کہ اگر ولی قصاص میں اپنے مقتول کے قاتل کو قتل کردے تو یہ فعل صحیح ہے اور اگر اس کو معاف کردے تو یہ فعل اصح اور احسن ہے اور سب سے پہلے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خاندان کے مقتول کو معاف فرمادیا۔ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : سنو ! جو شخص بھی زیادتی کرتا ہے وہ اپنے نفس پر زیادتی کرتا ہے، کوئی شخص اپنی اولاد پر زیادتی نہ کرے اور نہ کوئی اپنے والد پر زیادتی کرے، سنو ! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے، سوا اس چیز کے جس کو اس نے خود حلال کردیا ہو، سنو زمانہ ٔ جاہلیت کا ہر سود ساقط کردیا گیا ہے۔ تمہیں اپنے اصل زر کو لینے کا حق ہے، نہ تم ظلم کرنا اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا، ماسوا عباس بن عبدالمطلب کے سود کے، وہ سارے کا سارا ساقط کردیا گیا ہے اور سنو ! زمانہ ٔ جاہلیت کے ہر خون کو ساقط کردیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں جس خون کو معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ بنولیث میں دودھ پیتے تھے، ان کو ہذیل نے قتل کردیا تھا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٨٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٥١، مسندڈ احمد ج ٣ ص ٤٢٦)

اسی طرح جس شخص سے جتنی رقم قرض لی ہے اس کو اتنی ہی رقم واپس کرنا صحیح اور حسن فعل ہے اور اس سے زیادہ رقم واپس کرنا احسن فعل ہے۔ بشرطیکہ وہ زیادتی پہلے سے مشروط نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک معین عمر کا اونٹ قرض دیا تھا، وہ آپ کے پاس اپنے اونٹ کا تقاضا کرنے آیا، آپ نے صحابہ سے فرمایا : اس کو اونٹ ادا کردو، صحابہ نے اس اونٹ کی عمر کا اونٹ تلاش کیا تو وہ نہیں ملا، البتہ اس سے افضل اونٹ تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو وہی اونٹ دے دو ، اس قرض خواہ نے کہا : آپ نے مجھے پورا پورا قرض دیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو پورا پورا اجر دے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اچھی طرح قرض ادا کیا کریں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٩٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣١٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٦١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٢٣)

اسی طرح اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز خریدے اور بعد میں اس کی قیمت ادا کردے تو یہ صحیح فعل ہے اور اگر بعد میں اس کو قیمت بھی دے دے اور وہ چیز بھی دے دے تو یہ احسن فعل ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا، میرا اونٹ بہت دیر لگا رہا تھا اور مجھ کو تھکارہا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اونٹ کے پاس آئے اور فرمایا : جابر ! میں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرا اونٹ بہت سست چل رہا ہے اور مجھے تھکا رہا ہے، سو میں سب سے پیچھے رہ گیا ہوں، آپ نے اتر کو اس کو ایک ڈھال سے مارا اور فرمایا : اب اس پر سوار ہو، میں اس پر سوار ہوا، پھر وہ اس قدر تیز چل رہا تھا کہ میں اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سبقت سے بہ مشکل روک رہا تھا، آپ نے پوچھا : تم نے شادی کرلی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! آپ نے پوچھا : کنواری سے یا بیوہ سے ؟ میں نے کہا : بیوہ سے، آپ نے فرمایا : تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی، تم اس سے دل لگی کرتے وہ تم سے دل لگی کرتی ؟ میں نے عرض کیا : میری چند بہنیں ہیں۔ میں نے چاہا کہ میں ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی تربیت اور اصلاح کرے، ان کی کنگھی چوٹی کرے، ان کو ادب سکھائے، آپ نے فرمایا : اب تم گھرجا رہے ہو، جب گھر میں داخل ہو تو بہت احتیاط سے کام لینا، پھر آپ نے فرمایا : کیا تم یہ اونٹ فروخت کروگے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! تو آپ نے مجھ سے وہ اونٹ ایک اوقیہ (ڈیڑھ اونس سونا یا چالیس درہم، آج کل کا تقریباً ایک ہزار روپیہ) میں خرید لیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے پہلے مدینہ پہنچ گئے اور میں صبح کو پہنچا، ہم مسجد میں گئے تو آپ مسجد کے دروازے پر تھے، آپ نے فرمایا : تم اب آئے ہو، میں نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : اچھا تم اپنا اونٹ چھوڑ دو اور مسجد میں داخل ہو کردو رکعت نماز پڑھو، میں نے مسجد میں داخل ہو کردو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ اوقیہ وزن کرکے دو ، حضرت بلال نے میزان میں وزن کیا اور پلڑا جھکتا ہوا رکھا۔ میں چلا گیا حتیٰ کہ میں نے پیٹھ پھیرلی، آپ نے فرمایا : جابر کو بلائو، میں نے دل میں سوچا کہ اب آپ مجھے اونٹ واپس کردیں گے اور مجھے یہ بات سخت ناپسند تھی کہ یہ بیع فسخ ہوجائے، آپ نے فرمایا : اپنا اونٹ لے جائو اور یہ قیمت بھی تمہاری ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣٤٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٧٨، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ٧١)

یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی چیز کو خریدنا ہے کہ بیچنے والے کو چیز کی قیمت بھی دے دی اور وہ چیز بھی دے دی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے ساتھ زیادتی کی جائے اور اس سے اتنا ہی بدلہ لے لیا جائے تو یہ صحیح فعل ہے اور حسن فعل یہ ہے کہ اس کو معاف کردیا جائے اور احسن فعل یہ ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے اور اس کو انعام واکرام سے نوازا جائے اور قرآن مجید نے ہمیں احسن فعل کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے اور اس نوع کے احسن افعال کی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بہت مثالیں ہیں۔ عبداللہ بن ابی نے ایک دن آپ سے کہا : اپنی سواری ایک طرف کریں، اس سے بدبو آتی ہے، وہ جنگ احد میں عین لڑائی کے وقت اپنے تین سو ساتھیوں سمیت لشکر سے نکل گیا، اس نے ایک دن کہا : مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے، عزت والوں سے مراد اس کی اپنی ذات تھی اور ذلت والوں سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب تھے، اس نے آپ کو حرم محترم حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے متعلق سخت ناپاک تہمت لگائی، لیکن جب یہ مرنے لگا اور اس نے اپنے کفن کے لیے آپ کی قمیص مانگی اور نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تو آپ نے اس کو اپنی قمیص عطا کردی اور حضرت عمر کے روکنے کے باوجود اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٦٦)

امام ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ آپ کے اس حسن خلق کو دیکھ کر اس کی قوم کے ایک ہزار آدمی اسلام لے آئے۔ (جامع البیان ج ١٠ ص ١٤٢، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٠٩ ھ)

ابوسفیان نے متعدد بار مدینہ پر حملے کیے، اس کی بیوی ہند نے آپ کے محبوب عم محترم حضرت حمزہ (رض) کا جگر دانتوں سے چبایا، فتح مکہ کے بعد جب آپ ان سے انتقام لینے پر پوری طرح قادر تھے آپ نے ان دونوں کو معاف فرما دیا اور ابوسفیان کو یہ عزت بخشی کہ جو اس کے گھر میں داخل ہوگا اس کو امان ہوگی۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ١٦٤، دارالکتب العربیہ، بیروت)

ہجرت کی شب سراقہ بن مالک نے سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں آپ کا تعاقب کیا، اس کی گھوڑی کے دونوں اگلے پیر زمین میں دھنس گئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے اس کو نجات ملی، اس نے معافی چاہی تو آپ نے اس کو معاف کردیا اور ایک چمڑے کے ٹکڑے پر اس کو امان لکھ کر دے دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٥٠ ملخصا)

عمیر بن وہب آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر مدینہ آیا، آپ نے نور نبوت سے جان لیا کہ یہ آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آیا ہے، آپ نے اس کو یہ بتایا تو وہ خوف سے لرزنے لگا، آپ نے اس کو معاف کردیا۔ حضرت عمر نے اس کو قتل کرنا چاہا، آپ نے ان کو منع فرمایا۔ عمیر آپ کی دی ہوئی غیب کی خبر سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا، آپ نے اس کی سفارش سے اس کے قیدیوں کو آزاد کردیا۔ (السیرت النبویہ ج ٢ ص ٢٧٢) قرآن مجید میں ہے : ” جو غور سے بات کو سنتے ہیں اور احسن بات کی اتباہ کرتے ہیں۔ “ (الزمر : ١٨) سو اگر ہم نے احسن افعال کی اتباع کرنی ہے تو وہ احسن افعال صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں ہیں، انسان کی حیات کے ہر شبعہ کے لیے آپ کی زندگی میں احسن افعال ہیں، ان کو تلاش کیجئے اور ان ہی کی اتباع کیجئے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 17