أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَيۡسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبۡدَهٗ‌ ؕ وَيُخَوِّفُوۡنَكَ بِالَّذِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ‌ ؕ وَمَنۡ يُّضۡلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنۡ هَادٍ‌ ۞

ترجمہ:

کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے، یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا دوسرے (معبودوں) سے ڈرا رہے ہیں اور جس کو اللہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے، یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا دوسرے (معبودوں) سے ڈرا رہے ہیں اور جس کو اللہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے اور جس کو اللہ ہدایت عطا فرمائے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے، کیا اللہ غالب منتقم نہیں ہے ؟ اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، آپ کہیے : بھلا تم یہ بتائو کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کو پہنچائے ہوئے ضرر کو دور کرسکیں گے یا اگر وہ مجھ پر رحمت کا ارادہ کرے تو کیا وہ اللہ کی رحمت کو دور کرسکیں گے ؟ آپ کہیے : مجھے اللہ کافی ہے، اسی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں (الزمر :36-38)

کفار کی دھمکیوں سے اللہ کے بندوں کو مرعوب نہیں ہونا چاہیے

زمر : ٣٦ میں فرمایا : ” کیا اللہ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں ہے ؟ “ اس آیت میں بندہ سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، ابن زید نے اس کی تفسیر میں کہا : کیوں نہیں، اللہ آپ کو کافی ہے، وہ اپنے وعدہ کے مطابق آپ کو غلبہ عطا فرمائے گا اور آپ کی مدد فرمائے گا۔ اس کے بعد فرمایا : ” یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا دوسرے (معبودوں) سے ڈرا رہے ہیں۔ “ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو بسقام (یہ حجاز کی ایک وادی ہے جس میں قریش نے عزیٰ نام کے ایک بت کی حفاظت کے لیے ایک مکان بنارکھا ہے اور اس مکان کو خانہ کعبہ کا درجہ دیتے تھے) کی گھاٹیوں میں بھیجا تاکہ وہ عزیٰ نام کے بت کو توڑ دیں، اس کے محافظ نے حضرت خالد سے کہا : اے خالد ! میں تمہیں خبردار کررہا ہوں، عزیٰ بےپناہ قوت کا مالک ہے، کوئی شخص اس کی طاقت کا اندازہ نہیں کرسکتا، حضرت خالد نے کلہاڑا اٹھا کر اس کی ناک پر مارا اور اس کے دو ٹکڑے کردیئے۔ ابنزید نے کہا : یہ اپنے بتوں سے آپ کو ڈراتے ہیں کہ وہ آپ کو ضرور ضرر پہنچائیں گے۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اہل باطل ہمیشہ سے اہل حق کو دھمکاتے رہے ہیں اور ان کو پیغام حق پہنچانے سے روکتے رہے ہیں، فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا :

لئن اتخذت الھا غیری لا جعلنک من المسجونین (الشعراء : 29) اگر تو نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھ کو قیدیوں میں ڈال دوں گا

اللہ تعالیٰ تمام معلومات کا عالم ہے اور تمام ممکنات پر قادر ہے، وہ اپنے بندوں کی تمام ضروریات کو پورا کرنے پر قادر ہے، وہ ان سے تمام نقصان دو چیزوں کے دور کرنے اور تمام راحت کے امور پہنچانے پر غالب قدرت رکھتا ہے، سو وہ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے، سو اس کے بندہ کو اس کے غیر سے ڈرانا اور دھمکانا محض باطل ہے، ایک قرأت میں ” عبدہ “ کی جگہ ” عبادہ “ ہے، اس کا معنی ہے : کیا اللہ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یعنی ضرور کافی ہے، اس نے حضرت نوح علیہالسلام کے مخالفین کو غرق کردیا اور ان کو مخالفین سے نجات دی، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ کو گلزار کردیا، حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں کے مظالم سے نجات دی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنو اسرائیل کو فرعون کے جبر اور استبداد سے بچایا تو گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مخالفین اور دشمنوں سے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح کافی ہے جس طرح آپ سے پہلے رسولوں کے لیے اللہ تعالیٰ کافی تھا۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ہر نبی کی کافر قوم نے اپنے نبی کی تکذیب کی اور ان کو دھمکیاں دیں اور اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو اس قوم کے ضرر سے محفوظ رکھا جس طرح اس آیت میں ہے : کذبت قبلھم قوم نوح والاحزاب من بعدھم وھمت کل امۃ برسولھم لیا خذوہ وجادلوا بالباطل لید حضوائہ الحق فاخذ تھم فکیف کان عقاب المومن : 5) اس سے پہلے نوح کی (کافر) قوم نے تکذیب کی اور ان کے بعد دوسری جماعتوں نے (تکذیب کی) اور ہر (کافر) قوم نے اپنے رسول پر قابو پانے کا ارادہ کیا اور حق کو مغلوب کرنے کے لیے باطل کے بل بوتے پر کج بحثی کی، سو میں نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا تو دیکھو میری سزا کیسی تھی۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع میں اپنے تمام معاملات اور تمام افعال اور احوال میں صرف اللہ تعالیٰ کو کافی سمجھیں تو ان کی ہم مہم میں اللہ تعالیٰ ان کو کافی ہوگا، حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے اپنے تمام تفکرات کو صرف ایک فکر بنادیا اور وہ فکر آخرت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کے تفکرات سے کافی ہوگا اور جو شخص دنیا کے احوال کے تفکرات میں منہمک رہا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہورہا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٧، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٣٩)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 36