أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَئِنۡ سَاَ لۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَـقُوۡلُنَّ اللّٰهُ‌ ؕ قُلۡ اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ اَرَادَنِىَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلۡ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوۡ اَرَادَنِىۡ بِرَحۡمَةٍ هَلۡ هُنَّ مُمۡسِكٰتُ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ قُلۡ حَسۡبِىَ اللّٰهُ‌ ؕ عَلَيۡهِ يَتَوَكَّلُ الۡمُتَوَكِّلُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے : اللہ نے، آپ کہیے : بھلا تم یہ بتائو کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہیے تو کیا یہ اس کے پہنچائے ہوئے ضرر کو دور کرسکیں گے ؟ یا اگر وہ مجھ پر رحمت کا ارادہ کرے تو کیا وہ اللہ کی رحمت کو دور کرسکیں گے، آپ کہیے : مجھے اللہ کافی ہے، اس پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں

تفسیر:

الزمر : ٣٨ میں فرمایا : ” اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، آپ کہیے : بھلا تم یہ بتائو کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے پہنچائے ہوئے ضرر کو دور کرسکیں گے یا اگر وہ مجھ پر رحمت کا ارادہ کرے تو کیا وہ اللہ کی رحمت کو دور کرسکیں گے ؟ آپ کہیے : مجھے اللہ کافی ہے، اسی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں “

متوکلین کے لیے اللہ تعالیٰ کا کافی ہونا

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بت پرستوں کے مذہب کو باطل فرمایا ہے کیونکہ تمام مخلوق کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اور اس کو ہر چیز پر قدرت ہے اور انسان کی فطرت اور اس کی عقل اس پر شہادت دیتی ہے اور جو شخص بھی آسمانوں اور زمینوں کے عجیب و غریب احوال میں اور انسان کے بدن کی اندرونی مشین اور اس کی کارکردگی میں غور کرے گا اس پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ پتھر کے بےجان بت جن کو انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی اڑانے پر قادر نہیں ہیں وہ کب کسی سے ضرر کو دور کرسکتے ہیں یا کسی سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دور کرسکتے ہیں، سو کسی صاحب عقل کو ان دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بت اس کا کچھ بگاڑ لیں گے یا اس کے کسی فائدہ کو روک لیں گے۔ نیز اس آیت میں فرمایا : ” آپ کہیے : مجھے اللہ کافی ہے، اس پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں۔ “ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ جو شخص کافی سے غیر کافی کی طرف منتقل ہوگا اس کا مقصود پورا نہیں ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے تمام امور اسی کو سونپ دیئے جائیں اور صرف اب کی اطاعت کی جائے اور جب بندہ صرف اللہ عزوجل کی اطاعت کرے گا تو کائنات کی ہر چیز اس کی اطاعت کرے گی، حدیث میں ہے :

ابن المنکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے، ایک مرتبہ وہ روم کی سرزمین میں لشکر سے بھٹک گئے یا ارض روم میں قید کرلیے گئے، پس وہ مسلمانوں کے لشکر کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگے تو اچانک ان کے سامنے ایک شیر آگیا، حضرت سفینہ نے اس شیر سے کہا : اے ابو الحارث ! میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آزاد کردہ غلام ہوں اور میرے ساتھ اس، اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے۔ پس شیر ان کی طرف دم ہلاتا ہوا بڑھا اور ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا، جب وہ کوئی خوف ناک آواز سنتا تو اس کی طرف متوجہ ہوتا، پھر ان کے پہلو بہ پہلو چلتا رہا حتیٰ کہ لشکر تک پہنچ گیا، پھر شیر واپس چلا گیا۔ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٧٣٢، المصنف رقم الحدیث : ٢٠٥٤٤، المستدرک ج ٣ ص ٦٠٦، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٩٤٢، مسند البزار رقم الحدیث : ٢١٦٦) اس حدیث میں حسب ذیل فوائد ہیں :

(١) حضرت سفینہ نے شیر سے بےخوف وخطر کلام کیا، کیونکہ ان کو یقین تھا کہ وہ شیر ان کو ضرر نہیں پہنچائے گا اور وہ ان کا کلام سنے گا، اس کو سمجھے گا اور ان کی مدد کرے گا اور ان کو لشکر اسلام تک پہنچائے گا، یہ حضرت سفینہ (رض) کی کرامت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے۔

(٢) جب کوئی مسلمان اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے خوالے کردے تو درندے بھی اس کو ضرر نہیں پہنچاسکتے تو جمادات کب ضرر پہنچاسکیں گے۔

(٣) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور ہر معاملہ میں اس پر توکل کرنا مصائب سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

(٤) حضرت سفینہ (رض) نے شیر کو یہ بتایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام ہوں تو اس نے آپ کو لشکر اسلام تک پہنچادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مسلمان راستہ بھٹک جائے یا اس کو کوئی اور افتاد پیش آجائے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے سے اس سے وہ مصیبت ٹل جاتی ہے اور یہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل کرتا ہے اس کو دنیا میں سیدھا راستہ مل جاتا ہے تو انشاء اللہ آخرت میں بھی وہ سیدھے راستے کی ہدایت حاصل کرے گا۔

(٥) صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ اخلاص کے ساتھن توحید کے تقاضوں پر عمل کرے اور اللہ تعالیٰ کے ماسوائے اعراض کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو ہرحال میں کافی ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 38