أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ‌ وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ ۞

ترجمہ:

اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے

اللہ تعالیٰ کو بندروں اور خنزیروں کا خالق کہنا ممنوع ہے

الزمر : ٦٢ میں فرمایا ہے : ” اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی حمد میں یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ گندگی، کیڑے مکوڑوں اور بندروں اور خنزیروں کا خالق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف حسن اور اچھائی کی تخلیق کی نسبت کرنا صحیح ہے اور بُرائی کی تخلیق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ ہماری کتب عقائد میں اسی طرح مذکور ہے۔

علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں : یفال انہ خالق الکل ولا یقال خالق الفاذورات والقردۃ والخنازیر۔ (شرح المقاصد ج ٤ ص ٢٧٥، ایران، ١٤٠٩ ھ)

یہ کہا جائے گا کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ گندگیوں اور بندروں کا اور خنزیروں کا خالق ہے۔ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٥ ھ لکھتے ہیں : انما لا یطلق لفظ الشریر علیہ کما لا یطلق لفظ خالق القردۃ ہوالخنازیر مع کونہ خالقا لھما۔ (شرح المواقف ج ٨ ص ٦٣، مطبوعہ ایران)

اللہ تعالیٰ پر لفظ شریر کا اطلاق نہیں کیا جائے گا جس طرح اللہ تعالیٰ پر یہ اطلاق نہیں کیا جائے گا کہ وہ بندروں اور خنزیروں کا خالق ہے، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے۔ علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی متوفی ٨٨١ ھ لکھتے ہیں :

ولا یصح ان یقال خالق القاذورات و خالق القردۃ والخنازیر مع کو نھا مخلوقۃ اتفاقا۔ (المسامرہ شرح المسائرہ ص ١٢٨، دائرۃ المعارف الاسلامیہ، مکران)

اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ گندگیوں، بندروں اور خنزیروں کا خالق ہے، حالانکہ بالاتفاق یہ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں۔

امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ خالق الاجسام ہے لیکن اس کو کیڑے مکوڑوں اور بندروں کا خالق کہنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس قسم کے الفاظ سے اس کی تنزیہ واجب ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ٤١٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

یہ کہنا کفر ہے کہ میری آنتیں ” قل ھواللہ “ پڑھ رہی ہیں اور دیگر کفر یہ محاروے

بعض لوگ شدید بھوک کا اظہار کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں : میری آنتیں قل ھواللہ پڑھ رہی ہیں یہ کلمہ کفریہ ہے کیونکہ آنتوں میں فضل اور براز ہوتا ہے اور یہ نجس چیز ہے اور نجس چیز کی طرف اللہ کے کلام کی نسبت کرنا کفر ہے۔

ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : من قال لاخر طبخ القدر بقل ھواللہ احد کفر۔ جس نے دوسرے شخص سے کہا :” پتیلی نے قل ھواللہ احد سے کھانا پکایا “ اس شخص کی تکفیر کی جائے گی۔

علامہ حسن بن منصور اوز جندی متوفی ٥٩٢ ھ لکھتے ہیں :

جس شخص نے مذاق سے یا استہزاء سے یا تخفیف کرتے ہوئے کلمہ کفر کہا، وہ سب کے نزدیک کافر ہوجائے گا خواہ اس کا اعتقاد اس کلمہ کفر کے برخلاف ہو۔ (فتادوی قاضی خاں علی ھامش الہندیہ ج ٣ ص ١٥٧٧، البحرالرائق ج ٥ ص ١٢٠، المحیط البرھانی ج ٥ ص ٥٦٢ )

بعض لوگ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ ہر چیز خدا کی حمد اور تسبیح کرتی ہے، قرآن مجید میں ہے :

وان من شیء الا یسبح بحمدہ۔ (بنواسرائیل :44) ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔

اور ہر چیز کے عموم میں آنتیں بھی داخل ہیں، سو ان کا قل ھواللہ پڑھنا بھی جائز ہونا چاہیے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہر چیز کے عموم میں تولید اور پیشاب بھی داخل ہے تو کیا ان کی طرف بھی حمد اور تسبیح کی نسبت کی جائے گی ؟ اس لیے اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہر جو چیز طاہر اور طیب ہو اور مبتذل نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کرتی ہے، فقہاء نے ہانڈی اور دیگچی کی طرف بھی قل ھو اللہ پڑھنے کی نسبت کو کفر قرار دیا ہے، حالانکہ ہانڈی نجس ہے نہ نجاست کا محل ہے اور آنتیں نجاست کا محل ہیں تو ان کی طرف قل ھو اللہ پڑھنے کی نسبت کرنا بہ طریق اولیٰ کفر ہوگا، اسی طرح یہ محاورات بھی کفریہ ہیں : فلاں نے فلاں کو صلوٰتیں سنائیں۔ اس میں گالم گلوچ اور فحش کلام پر صلوٰت کا اطلاق ہے، اسی طرح یہ محاورہ بھی کفریہ ہے : نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑگئے، اس میں روزوں سے بیزاری کا اظہار ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 62