أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۞

ترجمہ:

اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ؏

تفسیر:

الزمر : ٦٣ میں فرمایا :” اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں “۔ الآیۃ

مقالید کا معنی اور اس کی تفسیر میں درج حدیث کی تحقیق

اس آیت میں ” مقالید “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : مفاتیح یعنی چابیا، اس کی حسب ذیل تفسیریں ہیں :

(١) سدی نے کہا : اس سے مراد ہے آسمانوں اور زمینوں کے خزانے۔

(٢) آسمانوں کے خزانوں سے مراد ہے بارش اور زمین کے خزانوں سے مراد ہے زمین کی پیداوار۔

(٣) اس کی تفسیر میں حسب ذیل حدیث بھی روایت کی گئی ہے :

حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر کے متعلق دریافت کیا، آپ نے فرمایا : تم سے پہلے مجھ سے اس کی تفسیر کے متعلق کسی نے دریافت نہیں کیا، اس کی تفسیر ہے ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و سبحان اللہ وبحمدہ واستغفر اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ، الا ولا ولا خروالظاھر والباطن وبیدہ الخیر ویحی ویمیت وھو علی کل شیء قدیر۔ “ جس شخص نے صبح اٹھ کر ان کلمات کو دس مرتبہ پڑھا اس کو چھ خصال عطا کی جائیں گی۔ پہلی خصلت کی وجہ سے وہ ابلیس اور اس کے لشکر سے محفوظ رہے گا اور دوسری خصلت کی وجہ سے اس کو بیشمار اجر عطا کیا جائے گا اور تیسری خصلت کی وجہ سے اس کا جنت میں درجہ بلند کیا جائے گا اور چوتھی خصلت کی وجہ سے بڑی آنکھوں والی حور سے اس کا عقد کیا جائے گا اور پانچویں خصلت کی وجہ سے اس کے پاس بارہ ہزار فرشتے آئیں گے اور چھٹی خصلت کی وجہ سے اسکو اس شخص کا اجر ملے گا جس نے قرآن مجید، تورات، انجیل اور زبور کی تلاوت کی ہو اور ان کے علاوہ اسے عثمان ! اسکو حج مقبول اور عمرہ کا اجر ملے گا اور اگر اسی دن وہ مرگیا تو اس پر شہداء کی مہر ہوگی۔

(عمل الیوم واللیلۃ رقم الحدیث : ٧٣، کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٤ ص ٢٣١، رقم الحدیث : ١٨٢٣، کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ١٣، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١١٥، حافظ البیہقی نے کہا : اس حدیث کو امام ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں الاغلب بن تمیم ہے، مفسرین میں سے اس کو امام عبدالرحمان بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، امام ابواسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ، علامہ محمود بن عمر الزمخشری متوفی ٥٣٨ ھ، علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، حافظ جلال الدین السیوطی المتوفی ٩١١ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ، علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے) ۔

ان مفسرین کی کتب کے حوالہ جات حسب ذیل ہیں :

(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٤٥٤، رقم الحدیث : ١٨٤٠٥، الکشف والبیان ج ٨ ص ٢٤٩، الجامع الاحکام القرآن جز ١٥ ص ٢٤٥، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٦٧، الدرالمنثور ج ٧ ص ٢١٠، روح البیان ج ٨ ص ١٧٩، روح المعانی جز ٢٤ ص ٣٥)

ہر چند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں اسناد ضعیفہ سے مروی احادیث کا بھی اعتبار ہوتا ہے۔

روئے زمین کے خزانوں کی چابیوں کے متعلق یہ حدیث بھی ہے :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خزانوں کا مالک ہونا

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے اور آپ نے شہداء احد پر وہ نماز پڑھی جو میت پر نماز پڑھی جاتی ہے، پھر آپ منبر پر واپس آئے، سو آپ نے فرمایا : میں تمہارا پیش روہوں اور میں تمہارا گواہ ہوں اور بیشک میں اللہ کی قسم ! ضرور اپنے حوض کی طرف اب دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمام روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں یا فرمایا : مجھے روئے زمین کی چابیاں دی گئی ہیں اور بیشک مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہوجائو گے لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ تم مال دنیا میں رغبت کرو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٤٤، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٢٢٣، مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٤٧٧)

اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، امام شافعی اس صریح اور صحیح حدیث کے خلاف قیاس پر عمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور زندہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی۔ ہم کہتے ہیں کہ زندہ کو قبر میں دفن بھی نہیں کیا جاتا اور اس کی میراث بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔ جب خلاف قیاس یہ امور جائز ہیں تو اس کی نماز جنازہ کیوں جائز نہیں ہے جب کہ وہ سنت سے ثابت ہے۔

اور اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام زمین کے خزانوں کے مالک ہیں، جس کو چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمادیں اور اس حدیث کی یہ توجیہ بھی صحیح ہے کہ آپ کے وصال کے بعد آپ کی امت ان خزانوں کی مالک ہوگی۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہے ہیں۔

اس کی تشریح میں علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں :

آپ کا یہ ارشاد اپنے ظاہر پر محمول ہے گویا اس حالت میں آپ پر وہ حوض منکشف کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد لکھتے ہیں :

علامہ خطابی نے کہا : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ حوض پیدا کیا جاچکا ہے اور اب بھی حقیقت میں موجود ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے کہ آپ نے دنیا میں اس حوض کو دیکھ لیا جو آپ کو آخرت میں دیا جائے گا اور آپ نے اس کی خبر دی اور اس میں آپ کا دوسرا معجزہ یہ ہے کہ آپ کو تمام روئے زمین کی چابیاں دے دی گئیں اور آپ کے بعد آپ کی امت ان خزانوں کی مالک ہوگی۔ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ٢٢٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، امام شافعی اس صریح اور صحیح حدیث کے خلاف قیاس پر عمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہید زندہ ہوتا ہے اور زندہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی۔ ہم کہتے ہیں کہ زندہ کو قبر میں دفن بھی نہیں کیا جاتا اور اس کی میراث بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔ جب خلاف قیاس یہ امور جائز ہیں تو اس کی نماز جنازہ کیوں جائز نہیں ہے جب کہ وہ سنت سے ثابت ہے۔

اور اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام زمین کے خزانوں کے مالک ہیں، جس کو چاہیں جتنا چاہیں عطا فرما دیں اور اس حدیث کی یہ توجیہ بھی صحیح ہے کہ آپ کے وصال کے بعد آپ کی امت ان خزانوں کی مالک ہوگی۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہے ہیں۔

اس کی تشریح میں علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں :

آپ کا یہ ارشاد اپنے ظاہر پر محمول ہے گویا اس حالت میں آپ پر وہ حوص منکشف کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد لکھتے ہیں :

علامہ خطابی نے کہا : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ حوض پیدا کیا جاچکا ہے اور اب بھی حقیقت میں موجودہ ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے کہ آپ نے دنیا میں اس حوض کو دیکھ لیا جو آپ کو آخرت میں دیا جائے گا اور آپ نے اس کی خبر دی اور اس میں آپ کا دوسرا معجزہ یہ ہے کہ آپ کو تمام روئے زمین کی چابیاں دے دی گئیں اور آپ کے بعد آپ کی امت ان خزانوں کی مالک ہوگی۔ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ٢٢٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

امام ابو منصور ماتریدی حنفی متوفی ٣٣٥ ھ لکھتے ہیں : آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کی ملک میں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے لطف کے خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں اور یہ دلوں کے آسمانوں میں چھپی ہوئی ہیں اور اس کے قہر کی چابیاں بھی اسی کے پاس ہیں اور یہ نفوس کی زمینوں میں رکھی ہوئی ہیں، یعنی اس کے لطف اور اس کے قہر کے خزانوں کی چابیوں کا اس کے سوا اور کوئی مالک نہیں ہے۔ وہ اپنے لطف کے خزانوں کو جس کے دل پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے جس سے حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اخلاق حسنہ کے جواہر نکلتے ہیں اور وہ اپنے قہر کے خزانوں کو جس کے نفس پر چاہتا ہے کھول دیتا ہے، پھر اس نفس سے افعال مذمومہ صادر ہوتے ہیں، حدیث میں ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا پڑھتے تھے :

یامقلب القلوب نیت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین قائم رکھ۔

میں نے کہا : یارسول اللہ ! ہم آپ پر اور آپ کے دین پر ایمان لاچکے ہیں، کیا آپ کہ ہم پر کوئی خطرہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ؍ ہاں ! تمام فکوب فرحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٤٠، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ج ٢٠٩، ج ١١ ص ٣٦، مسند احمد ج ٣ ص ٨٨، الشریعۃ للاجری ص ٣١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٤٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٥٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٣١٧، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٣٣٥٥ )

اللہ تعالیٰ کی ازل میں علم تھا کہ کون شخص اپنے اختیار سے کیسے کام کرے گا، وہ اپنے اس علم کے اعتبار سے دلوں کو پلٹتا رہتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دعا سے مستغنی نہیں ہیں تو ہم لوگوں کو یہ طریق اولیٰ بکثرت یہ دعا کرنی چاہیے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 63