اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ-وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ-ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ(۴۵)

اے محبوب کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا (ف۸۳) کہ کیسا پھیلا یاسایہ (ف۸۴) اور اگرچاہتا تواُسے ٹھہرایا ہواکردیتا(ف۸۵)پھرہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا

(ف83)

کہ اس کی صنعت و قدرت کیسی عجیب ہے ۔

(ف84)

صبحِ صادق کے طلوع کے بعد سے آفتاب کے طلوع تک کہ اس وقت تمام زمین میں سایہ ہی سایہ ہوتا ہے نہ دھوپ ہے نہ اندھیرا ہے ۔

(ف85)

کہ آفتاب کے طلوع سے بھی زائیل نہ ہوتا ۔

ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا(۴۶)

پھر ہم نے آہستہ آہستہ اُسے اپنی طرف سمیٹا (ف۸۶)

(ف86)

کہ طلوع کے بعد آفتاب جتنا اونچا ہوتا گیا سایہ سمٹتا گیا ۔

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا(۴۷)

اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ کیا اور نیند کو آرام اور دن بنایااُٹھنے کے لیے(ف۸۷)

(ف87)

کہ اس میں روزی تلاش کرو اور کاموں میں مشغول ہو ۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا جیسے سوتے ہو پھر اٹھتے ہو ایسے ہی مرو گے اور موت کے بعد پھر اٹھو گے ۔

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖۚ-وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ(۴۸)

اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سناتی ہوئی (ف۸۸) اور ہم نے آسمان سے پانی اُتارا پاک کرنے والا

(ف88)

یہاں رحمت سے مراد بارش ہے ۔

لِّنُحْیِﰯ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا(۴۹)

تاکہ ہم ا س سے زندہ کریں کسی مُردہ شہر کو (ف۸۹) اور اُسے پلائیں اپنے بنائے ہوئے بہت سے چوپائے اور آدمیوں کو

(ف89)

جہاں کی زمین خشکی سے بے جان ہو گئی ۔

وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا ﳲ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(۵۰)

اوربےشک ہم نے اُن میں پانی کے پھیرے رکھے (ف۹۰) کہ وہ دھیان کریں (ف۹۱)تو بہت لوگوں نے نہ مانا مگر ناشکری کرنا

(ف90)

کہ کبھی کسی شہر میں بارش ہو کبھی کسی میں ، کبھی کہیں زیادہ ہو کبھی کہیں ، مختلف طور پر حسبِ اقتضائے حکمت ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان سے روز و شب کی تمام ساعتوں میں بارش ہوتی رہتی ہے اللہ تعالٰی اسے جس خطہ کی جانب چاہتا ہے پھیرتا ہے اور جس زمین کو چاہتا ہے سیراب کرتا ہے ۔

(ف91)

اور اللہ تعالٰی کی قدرت و نعمت میں غور کریں ۔

وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا٘ۖ(۵۱)

اور ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیجتے (ف۹۲)

(ف92)

اور آپ پر سے اِنذار کا بار کم کر دیتے لیکن ہم نے تمام بستیوں کے اِنذار کا بار آپ ہی پر رکھا تاکہ آپ تمام جہان کے رسول ہو کر کُل رسولوں کی فضیلتوں کے جامع ہوں اور نبوّت آپ پر ختم ہو کہ آپ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہو ۔

فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا(۵۲)

تو کافروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے اُن پر جہاد کر بڑا جہاد

وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(۵۳)

اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے رواں کیے دو سمندر یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور روکی ہوئی آڑ (ف۹۳)

(ف93)

کہ نہ میٹھا کھاری ہو نہ کھاری میٹھا ، نہ کوئی کسی کے ذائقہ کو بدل سکے جیسے کہ دجلہ دریائے شور میں میلوں تک چلا جاتا ہے اور اس کے ذائقہ میں کوئی تغیر نہیں آتا عجب شانِ الٰہی ہے ۔

وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ-وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا(۵۴)

اور وہی ہے جس نے پانی سے (ف۹۴) بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کی (ف۹۵) اور تمہارا رب قدرت والا ہے (ف۹۶)

(ف94)

یعنی نطفہ سے ۔

(ف95)

کہ نسل چلے ۔

(ف96)

کہ اس نے ایک نطفہ سے دو قسم کے انسان پیدا کئے مذکر اور مؤنث پھر بھی کافِروں کا یہ حال ہے کہ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَ لَا یَضُرُّهُمْؕ-وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا(۵۵)

اور اللہ کے سواایسوں کو پوجتے ہیں (ف۹۷) جو ان کا بھلا برا کچھ نہ کریں اور کافر اپنے رب کے مقابل شیطان کو مدد دیتا ہے (ف۹۸)

(ف97)

یعنی بُتوں کو ۔

(ف98)

کیونکہ بُت پرستی کرنا شیطان کو مدد دینا ہے ۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۵۶)

اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر (ف۹۹) خوشی اور (ف۱۰۰) ڈر سناتا

(ف99)

ایمان و طاعت پر جنّت کی ۔

(ف100)

کُفر و معصیت پر عذابِ جہنّم کا ۔

قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(۵۷)

تم فرماؤ میں اس (ف۱۰۱) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف راہ لے (ف۱۰۲)

(ف101)

تبلیغ و ارشاد ۔

(ف102)

اور اس کا قُرب اور اس کی رضا حاصل کرے مراد یہ ہے کہ ایمانداروں کا ایمان لانا اور ان کاطاعتِ الٰہی میں مشغول ہونا ہی میرا اجر ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی مجھے اس پر جزا عطا فرمائے گا اس لئے کہ صُلَحاءِ اُمّت کے ایمان اور ان کی نیکیوں کے ثواب انہیں بھی ملتے ہیں اور ان کے انبیاء کو جن کی ہدایت سے وہ اس رتبہ پر پہنچے ۔

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖؕ-وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَاﰳ (۵۸)

اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا (ف۱۰۳) اور اُسے سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو (ف۱۰۴) اور وہی کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں پر خبردار (ف۱۰۵)

(ف103)

اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ مرنے والے پر بھروسہ کرنا عاقل کی شان نہیں ۔

(ف104)

اس کی تسبیح و تمحید کرو اس کی طاعت اور شکر بجا لاؤ ۔

(ف105)

نہ اس سے کسی کا گناہ چھپے نہ کوئی اس کی گرفت سے اپنے کو بچا سکے ۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۚۛ-اَلرَّحْمٰنُ فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا(۵۹)

جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ دن میں بنائے(ف۱۰۶) پھرعرش پر استواء فرمایاجیسا اس کی شان کے لائق ہے (ف۱۰۷) وہ بڑی مِہر(رحمت) والا تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ (ف۱۰۸)

(ف106)

یعنی اتنی مقدار میں کیونکہ لیل و نہار اور آفتاب تو تھے ہی نہیں اور اتنی مقدار میں پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم کے لئے ہے ورنہ وہ ایک لمحہ میں سب کچھ پیدا کر دینے پر قادر ہے ۔

(ف107)

سلف کا مذہب یہ ہے کہ استواء اور اس کے امثال جو وارد ہوئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت کے درپے نہیں ہوتے اس کو اللہ جانے ۔ بعض مفسِّرین استواء کو بلندی اور برتری کے معنٰی میں لیتے ہیں اور بعض استیلا کے معنٰی میں لیکن قولِ اول ہی اسلم و اقوٰی ہے ۔

(ف108)

اس میں انسان کو خِطاب ہے کہ حضرت رحمٰن کے صفات مردِ عارف سے دریافت کرے ۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠۩(۶۰)

اور جب اُن سے کہا جائے (ف۱۰۹)رحمٰن کو سجدہ کرو کہتے ہیں رحمٰن کیا ہے کیا ہم سجدہ کرلیں جسے تم کہو (ف۱۱۰) اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا (ف۱۱۱)

(ف109)

یعنی جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین سے فرمائیں کہ ۔

(ف110)

اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ رحمٰن کو جانتے نہیں اور یہ باطل ہے جو انہوں نے براہِ عناد کہا کیونکہ لغتِ عرب کا جاننے والا خوب جانتا ہے کہ رحمٰن کے معنٰی نہایت رحمت والا ہیں اور یہ اللہ تعالٰی ہی کی صفت ہے ۔

(ف111)

یعنی سجدہ کا حکم ان کے لئے اور زیادہ ایمان سے دوری کا باعث ہوا ۔