حضرت فاطمہؓ کے غلو میں مشہور کردہ جھوٹی روایات !!

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی

تفضیلیوں کا ایک ٹولہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ قیامت کے دن جب حضرت فاطمہؓ کا گزر ہوگا تو سب لوگوں کو نظر جھکانے کا حکم ہوگا !!!

اور حضرت فاطمہ کو حیض نہیں آتا تھا یا ان پرغسل واجب نہ تھا حیض کے بعد وہ حیض میں بھی نماز پڑھتی تھیں ۔

یہ جھوٹ رافضیوں نے گھڑا ہے

امام طبرانی اس روایت کو اپنی معجم میں نقل کیا ہے درج ذیل سند سے :

حدثنا أبو مسلم قال: نا عبد الحميد بن بحر الزهراني قال: نا خالد بن عبد الله الواسطي، عن بيان أبي بشر، عن الشعبي، عن أبي جحيفة، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان يوم القيامة قيل: يا أهل الجمع غضوا أبصاركم تمر فاطمة بنت محمد، قال: فتمر وعليها ريطتان خضراوان»

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو کہا جائے گا ”اے اہل محشر! اپنی گناہوں کو نیچے کرو، فاطمہ بنت محمدﷺ گزر رہی ہیں ، آپ اس شان سے گزریں گی کہ آپ پر دو سبز جوڑے ہونگے ۔

لم يرو هذا الحديث عن بيان إلا خالد، تفرد به عبد الحميد، والعباس بن بكار الضبي، ولا يروى عن علي إلا بهذا الإسناد

اما م طبرانی کہتے ہیں :

یہ حدیث بیان (راوی)سے کوئی بیان نہیں کرتا سوائے خالد کے اور اس میں تفرد ہے عد الحمید اور العباس بن بکار ضبی کا اور حضرت علی سے سوائے ان دوں (راویان ) کے اور کوئی بیان نہیں کرتا

[المعجم الأوسط برقم : 2386]

امام طبرانی کی بیان کردہ سند میں پہلا راوی ہے عبد الحمید بن بحر ہے جسکے بارے ناقدین نے درج ذیل حکم لگایا ہے :

امام ابن عدی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :

قَالَ الشَّيْخُ: وهذا يعرف بثابت بن موسى الكوفي عن شَرِيك وقد سرقه مِنْهُ جماعة ضعفاء منهم عَبد الحميد بن بحر هذا.

ابن عدی کہتے ہیں : یہ (حدیث) معروف ہے ثابت بن موسی الکوفی سے شریک کے حوالے سے ، اور پھر ایک ضعفاء کی جماعت نے اسکو سرقہ (یعنی چوری )کر لیا جن میں سے ایک عبد الحمید بن بحر یہی ہے

اور دوسری روایت کے بارے میں حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں :

ولا أعلم يرويه بهذا الإسناد غير عَبد الحميد عن منصور ولعبد الحميد هذا غير حديث منكر رواه وسرقه من قوم ثقات

میرے علم میں نہیں اس روایت کی کوئی اور سند ہو ، سوائے عبد الحمید کے منصور سے روایت کرنے کے اور عبد الحمید کی یہ حدیث منکر ہے اور یہ ثقات کی روایات سرقہ (چرا) کے بیان کرتا ہے

[الکامل فی ضعفاء الرجال برقم : 1472[

امام ابن حبان انکے بارے کہتے ہیں :

عبد الحميد بن بحر الكوفي سكن البصرة يروي عن مالك وشريك والكوفيين مما ليس من أحاديثهم كان يسرق الحديث

عبد الحمید بن بحر یہ کوفی ہے اور بصرہ میں رہتا تھا یہ مالک ، شریک اور کوفہ والوں سے روایت کرتا ہے ۔ اسکی (اپنی بیان کردہ) احادیث نہ تھیں بلکہ یہ حدیثیں چھوری کرتا تھا (ثقات سے )

[المجروحین ابن حبان ، برقم : 748]

اور امام ذھبی نے میزان میں اس راوی کے ترجمہ امام ابن حبان اور ابن عدی کی جرح نقل کرنے کے بعد امام طبرانی کی المعجم سے مذکورہ روایت کو بطور منکر و کذب ثابت کرنے کے لیے نقل بھی کیا ہے میزان میں ۔

اور طبرانی نے عبد الحمید کا ایک اور متابع بھی بیان کیا تھا العباس بن بکار اور اس روایت میں ان دونوں کا تفرد بھی قرار دیا تھا

عباس بن بکار سے یہ روایت امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کی ہے مذکورہ سند سے :

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن عتاب العبدي، ببغداد، وأبو بكر بن أبي دارم الحافظ، بالكوفة، وأبو العباس محمد بن يعقوب، وأبو الحسين بن ماتي، بالكوفة، والحسن بن يعقوب، العدل، قالوا: ثنا إبراهيم بن عبد الله العبسي، ثنا العباس بن الوليد بن بكار الضبي، ثنا خالد بن عبد الله الواسطي، عن بيان، عن الشعبي، عن أبي جحيفة، عن علي عليه السلام قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ” إذا كان يوم القيامة نادى مناد من وراء الحجاب: يا أهل الجمع، غضوا أبصاركم عن فاطمة بنت محمد صلى الله عليه وسلم حتى تمر «هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه»

عباس بن ولید بن بکار الضبی کہتا ہے میں نے خالد سے سنا وہ بیان کے واسطے سے شعبی اور وہ ابی جحیفہ سے وہ حضرت علی سے بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم سے سنا الخ۔۔۔۔

اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس روایت کی تخریج نہیں کی ہے

حاکم کے تعاقب میں امام ذھبی تلخیص میں لکھتے ہیں :

[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4728 – لا والله بل موضوع

کہ یہ حدیث رسولﷺ نہیں بیشک اللہ کی قسم یہ موضوع (جھوٹ) ہے

اور عباس بن بکار ضبی کے بارے محدثین کا کلام درج ذیل ہے :

امام ابن حجر عسقلانی لسان میں امام ذھبی کا کلام نقل کرتے ہیں :

العباس بن بكار الضبي [أَبُو الوليد، وهو العباس بن الوليد بن بكار]

بصري.

عن خالد، وَأبي بكر الهذلي.

قال الدارقطني: كذاب

قلت: اتهم بحديثه عن خالد بن عبد الله عن بيان عن الشعبي، عَن أبي جحيفة، عَن عَلِيّ رضي الله عنه مرفوعا: إذا كان يوم القيامة نادى مناد يا أهل الجمع غضوا أبصاركم عن فاطمة حتى تمر على الصراط إلى الجنة.

وقال العقيلي: الغالب على حديثه الوهم والمناكير.

عباس بن بکار الضبی یہ بصری ہے

امام دارقطنی نے کہا کہ یہ کذاب تھا

اما م ذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اسکو اس حدیث کے حوالے سے متھم قرار دیا گیا ہے اسکے بعد امام ذھبی مذکورہ روایت کو بیان کرتے ہیں جو یہ حضرت فاطمہ کے بارے بیان کرتے ہیں مرفوع

امام عقیلی کہتے ہیں اسکی بیان کردہ احادیث میں غالب مناکیر اور وھم زدہ روایات تھیں

وقال ابن عَدِي: منكر الحديث عن الثقات، وَغيرهم.

امام ابن عدی کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے اور مناکیر ثقات سے بیان کرتا ہے

وقال أبو نعيم الأصبهاني: يروي المناكير لا شيء.

امام ابو نعیم کہتے ہیں کہ یہ مناکیر بیان کرتا تھا اور یہ (حدیث بیان کرنے اور ضبط ) میں کچھ بھی نہیں ہے

اسکے بعد امام ابن حجر عسقلانی ایک اور روایت کے بارے بھی کلام کرتے ہیں جو کہ اس نے گھڑی تھی کہ حضرت فاطمہ کو حیض میں خود نہیں آتا تھا اس طرح کے فحش متن پر ہے

وقال ابن أبي الدنيا: حدثنا إسحاق الأشقر , حَدَّثَنا العباس بن بكار , حَدَّثَنا عبد الله بن المثنى عن عمه ثمامة، عَن أَنس عن أم سليم قالت: لم ير لفاطمة دم في حيض، وَلا نفاس.

اس فحش روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ابن حجر عسقلانی کہتےہیں یہ روایت عباس کی طرف سےگھڑی ہوئی ہے

هذا من وضع العباس.

[لسان المیزان برقم: 4099]

پس ثابت ہو ایہ روایت جس میں قیامت کے دن حضرت فاطمہ سے پردہ کرنے کا حکم ہے اور انکے حیض کے متعلق جو بیا ن کیا گیاہےیہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے جو کہ ان کذابوں کی کارستانی ہے ان روایات کو لوگوں میں بیان کرنا حرام ہے

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی