أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِىۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰى وَلۡيَدۡعُ رَبَّهٗ‌ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يُّبَدِّلَ دِيۡنَكُمۡ اَوۡ اَنۡ يُّظۡهِرَ فِى الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ ۞

ترجمہ:

اور فرعون نے کہا : مجھے موسیٰ کو قتل کرنے دو اور موسیٰ کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے دعا کرئے، مجھے یہ خطرہ ہے کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا وہ اس ملک میں بڑا ہنگامہ کرے گا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور فرعون نے کہا : مجھے موسیٰ کو قتل کرنے دو اور موسیٰ کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے دعا کرئے، مجھے یہ خطرہ ہے کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا وہ اس ملک میں بڑا ہنگامہ کرے گا اور موسیٰ نے کہا : میں ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں لاتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ میں ہوں (المومن : 26-27)

فرعون کی قوم فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے کیوں باز رکھنا چاہتی تھی ؟

اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس کی قوم اس کو اس اقدام سے روکتی تھی، فرعون کی قوم جو فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے روکتی تھی اس کی مفسرین نے حسب ذیل وجوہ بیان کی ہیں :

(١) فرعون کی قوم میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا دل میں یہ اعتقاد تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دعویٰ نبوت میں صادق ہیں، وہ مختلف حیلوں اور تدبیروں سے فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

(٢) فرعون کے مصاحبوں نے اس سے کہا : تم (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو) قتل نہ کرو، وہ معمولی جادوگر ہیں، اگر تم نے ان کو قتل کردیا تو عوام یہ سمجھیں گے کہ (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) حق پر تھے اور تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے تم نے ان کو قتل کرادیا اور عوام تم سے بدظن ہوجائیں گے۔

(٣) فرعون کے ارکان دولت نے یہ سوچا کہ ابھی فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ میں الجھا ہوا ہے اور اس کی ہماری طرف توجہ نہیں ہے اور ہم ملک میں اپنی من مانی کررہے ہیں، اگر یہ حضرت موسیٰ کو قتل کرکے اس مہم سے فارغ ہوگیا تو پھر اس کی توجہ ہماری طرف ہوگی اور یہ ہمیں اپنی من مانی نہیں کرنے دے گا، اس لیے وہ فرعون سے کہتے تھے کہ تم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل نہ کرو۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ فرعون کو حضرت موسیٰ کو قتل کرنے سے کوئی منع تو نہیں کرتا تھا لیکن وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے مقابلہ کرکے ان کو قتل کرنے کا اعلان کیا اور پھر دوران مقابلہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے ایسے معجزات صادر ہوئے کہ وہ ان پر غالب نہ آسکا تو وہ بہت ذلیل اور رسوا ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس مقابلہ میں مارا جائے سو وہ خود اپنی موت سے ڈرتا تھا لیکن اس نے اپنا بھرم رکھنے کے لیے اور اپنا جعلی رعب ڈالنے کے لیے یہ کہا کہ ” مجھے (حضرت) موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے دو “ اور یہ ظاہر کیا کہ اس کی قوم اس کو حضرت موسیٰ کے قتل میں ہاتھ رنگنے سے منع کررہی ہے، حالانکہ اس کو کوئی منع نہیں کررہا تھا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کا یہ قول نقل فرمایا : ” مجھے یہ خطرہ ہے کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا وہ اس ملک میں بڑا ہنگامہ برپا کرے گا۔ “

فرعون کا اس کلام سے مقصود یہ تھا کہ وہ اپنے عوام کہ یہ بتائے کہ وہ حضرت موسیٰ کو کیوں قتل کرنا چاہتا ہے، اس نے بتایا کہ حضرت موسیٰ سے اس کو یہ خطرہ ہے کہ وہ اس کی قوم کے دین کو فاسد کردیں گے یا ان کی دنیا کو فاسد کردیں گے، اس کے زعم میں دین کا فساد یہ تھا کہ اس کے نزدیک صحیح دین وہی تھا جس پر وہ اور اس کی قوم تھی اور چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کی الوہیت کا انکار کرتے تھے اور اس کے عقائد اور نظریات کے مخالف تھے، اس لیے اس کو خطرہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو اس کا اور اس کی قوم کا دین فاسد ہوجائے گا اور دنیا کے فساد کا خطرہ یہ تھا کہ اگر تم بنو اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آواز پر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرعون کے خلاف بغاوت کردی تو ملک میں شورش اور ہنگامہ ہوگا اور امن اور چین جاتا رہے گا اور ہوسکتا ہے کہ فرعون کی قوم کو جواب اقتدار حاصل ہے وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے، بہرحال حضرت موسیٰ کے وجود سے خطرہ ہے، ان کے دین کو یا ان کی دنیا کو اور چونکہ ان کے نزدیک دین کا ضرر دنیا کے ضرر سے زیادہ خطرناک تھا اس لیے فرعون پہلے ان کو ان کے دین کے ضرر سے ڈرایا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 26