میرے دامن میں ہیں تہذیب کے پھول

تہذیب وہ طرز معاشرت ہے جس میں لوگوں کے معاملات اور اس کے علاقے کا تعین کرنا کافی حد تک آسان ہوتا ہے..

اور کلچر جو کسی علاقے کے لوگوں کے رہن سہن اور پہناوے کو ظاہر کرتا ہے..

لیکن ایک مسلمان کا تہذیب و تمدن قرآن و سنت کے تابع ہے..

اور ایک مسلمان کا کلچر علاقائی ہو کر بھی اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا وجود بناتا ہے..

تہذیب ایک ایسا گہوارہ ہے،جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے، انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے، انسانوں کے درمیان اقدار، معاملات ، تعلقات اور نظامِ زندگی یہ سب تہذیب کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔

کسی بھی تہذیب کے بنیادی طور پر چند اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں:..

(1) اخلاقی اقدار وروایات :

جس سے معاشرے کی اچھائی اور برائی میں تمیز کی جاتی ہے…

(2) مختلف علوم وفنون کا حصول :

کسی بھی تہذیب کو پروان چڑھانے میں سب سے اہم کردار علم و فن کا ہے…

(3)سیاسی نظام :

عدل و انصاف کو قائم کرنا اور لوگوں کا حق ان کی دہلیز تک پہنچانا سیاسی نظام کی ذمہ داری ہے…

(4) اقتصادی ذرائع:

اقتصادی ذرائع میں کچھ اللہ تعالی عطا فرماتا ہے؛ اس کا درست استعمال اور مزید ذرائع پیدا کرنا انسان کی کوشش پر منحصر ہوتا ہے؛ کیوں کہ قرآن کریم میں ہے لیس الانسان الا ما سعی : انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے…

اسلام کی اپنی تہذیب و تمدن ہے..

اسلامی تہذیب کی صفات؟

اسلامی تہذیب وتمدن کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صفات میں تصور توحید، اسلامی بھائی چارہ ، مساوات، دین ودنیا کا مکمل ضابطہ ، طہارت وپاکیزگی، عدل واحسان، اصلاح ، اور اخلاق حسنہ ہيں…..

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے.

جب اسلامی تہذیب میں اتنی صفات اور خوبیاں ہیں ہیں تو پھر آج کا مسلمان ان سے خالی کیوں ہے؟

اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے

ہمیں گزشتہ دو تین صدیوں پر نظر دوڑانی ہوگی

سلطنت عثمانیہ کا اختتام ہو: یا برصغیر پاک و ہند میں میں مغلوں کا اختتام..

پچھلی چند صدیوں سے مسلم حکمران یورپین ممالک کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے ہوئے؛ اسلامی تہذیب کو یورپین کلچر کا لباس پہنانا چاہتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں عام مسلمان تذبذب کا شکار ہے؛ ذہنی طور پر پراگندہ ہو چکا ہے…

جس کے نتیجے میں اب ہم جہاں کھڑے ہیں وہ ہے..

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم

کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا

اب ہم عیاشی یورپ کی طرح کرنا چاہتے ہیں مگر مسلمان رہتے ہوئے…

تہذیبوں کے اس ٹکراؤ میں ہمارے لیے حل کیا ہے ؟

اس کی دو ہی صورتیں ہیں

ایک تو یہ ہے کہ پوری طرح یورپی نظام کو اپنا لیا جائے: جو کہ کسی بھی اسلامی ملک میں کبھی بھی پوری طرح ممکن نہیں ہو سکے گا…

دوسری صورت میں اللہ اور اس کے رسول پر بھروسہ کرتے ہوئے خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز جیسے طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اسلامی طرز حکمرانی کو اختیار کیا جائے…

اگر میری بات کی سمجھ نہیں آرہی تو افغانستان میں روسی؛ امریکی؛ یورپین کلچر کے لیے پچھلے تیس سالوں میں کی جانے والی کوششوں کے نتائج دیکھ کر فیصلہ کر لیں…

عالمی طاقتیں قادیانیوں جیسے ہزار پودے بھی لگا لیں کسی ایک اللہ کے بندے کے ذریعے اسمبلی میں بھی انا خاتم النبیین لا نبی بعدی کے نعرے لکھوا دئیے جائیں گے….

جاری ہے……………..

تحریر :- محمد یعقوب نقشبندی اٹلی