أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيَقۡدِرُ‌ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیوں کا وہی مالک ہے، وہ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے رزق تنگ کردیتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

آسمانوں اور زمینوں کی کنجیوں کا وہی مالک ہے، وہ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے رزق تنگ کردیتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اس نے تمہارے لیے اسی دین کو مشروع (مقرر) کیا ہے جس دین کی اس نے نوح کو وصیت کی تھی اور جس دین کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور جس دین کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو وصیت کی تھی کہ تم دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا، جس دین کی طرف آپ مشرکین کو دعوت دے رہے ہیں وہ ان پر بہت شاق اور بھاری ہے، اللہ ہی اس دین کی طرف چن لیتا ہے جس کو چاہے اور اسی کو دین کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس دین کی طرف رجوع کرتا ہے (الشوریٰ : 12-13)

آسمانوں اور زمینوں کی چابیوں کے محامل اور رزق کی اقسام

اس آیت میں کنجیوں کے لیے ” مقالید “ کا لفظ ہے، یہ اقلید کی جمع ہے اور خلاف قیاس ہے اور کنجیاں یا چابیاں خزانوں سے کنایہ ہے اور اس سے مراد ہے : خزانوں پر قدرت اور اس کی حفاظت اور خزانوں میں وہی تصرف کرتا ہے جس کے پاس خزانوں کی چابیاں ہوتی ہیں، رزق کی چابی اللہ کی ذات پر صحیح توکل ہے اور قلب کی چابی اللہ کی صحیح معرفت ہے اور علم کی چابی تواضع ہے۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ فرشتوں کے دلوں میں جو غیب کے احکام ہیں وہ آسمانوں کی چابیاں ہیں اور اولیاء اللہ کے دلوں میں جو عجائب ودیعت کیے گئے ہیں وہ زمین کی چابیاں ہیں۔

نجم الدین دایہ نے کہا ہے کہ دلوں کے آسمانوں کی چابیاں اللہ کے پاس ہیں اور اس میں اس کے لطف اور رحمت کے خزانے ہیں اور نفوس کی زمینوں کی چابیاں اس کے پاس ہیں اور اس میں اس کے قہر اور غلبہ کے خزانے ہیں، پس ہر قلب میں اس کے الطاف کی ایک نوع کے خزانے ہیں، بعض دلوں میں معرفت کے خزانے ہیں اور بعض دلوں میں محبت کے خزانے ہیں، بعض میں ضد اور کفر کے خزانے ہیں۔ اسی طرح مذموم اخلاق ہیں جیسے شرک اور نفاق ہے اور حرص اور تکبر ہے اور غضب اور شہوت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نفوس کے رزق کو وسیع کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے، اسی طرح قلوب کے رزق کو وسیع کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے اور مخلوق کی طاقت میں یہ نہیں ہے۔ ظاہری رزق کھانے پینے کے اور عیش و عشرت کے سامان ہیں اور باطنی رزق علوم حقیقیہ اور معارف الٰہیہ ہیں۔

الشوریٰ : ١٢ میں فرمایا ” اس نے تمہارے لیے اسی دین کو مشروع (مقرر) کیا ہے جس دین کی اس نے نوح کو وصیت کی تھی اور جس دین کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور جس دین کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو وصیت کی تھی کہ تم دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا “۔

تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہونا اور شریعتوں کا متعدد ہونا

جن انبیاء (علیہم السلام) پر وحی نازل کی گئی ان میں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا ہے اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر نہیں فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اکابر، مشاہیر اور اولوالعزم انبیاء (علیہم السلام) ہیں، یہ سب عظیم شریعتوں والے تھے اور ان کے متبعین اور پیروکار بہت زیادہ تھے، ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت ان سب پر یہ وحی کی گئی تھی کہ وہ سب دین کو قائم رکھیں اور تفرقہ نہ ڈالیں۔

مجاہد نے اس آیت کی تفسیر کہا کہا ہے : اے محمد ! ہم نے آپ کو اور نوح کے دین واحد کی وحی کی ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان باب : ١)

اس کا معنی یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہے، اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے :

وما ارسلنا من قبلک من رسول الانوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون (الانبیاء : 25) ہم نے آپ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے ہیں ان سب کی طرف وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے سو تم سب میری ہی عبادت کرو

لہٰذا تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہے، البتہ ان کی شریعتیں مختلف ہیں جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے :

لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا۔ (المائدہ :48) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ شریعت اور دستور بنایا ہے۔

اور اس کی تائید میں یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

الانبیاء اخوۃ لعلات امھاتم شتی ودینھم واحد۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٣ )

انبیاء آپس میں باپ شریک بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین واحد ہے۔

دین اور شریعت کا لغوی اور اصطلاحی معنی

قرآن مجید کی آیات اور مذکور الصدر اثر اور حدیث سے واضح ہوگیا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہے اور ان کی شریعتیں مختلف ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ دین اور شریعت کی تعریف کی جائے۔ دین کا لغوی معنی ہے : اطاعت اور شریعت کا الغوی معنی ہے : راستہ، دین ان اصول اور عقائد کو کہتے ہیں جو تمام انبیاء (علیہم السلام) میں مشترک رہے ہیں مثلاً اللہ کے وجود، اس کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، تمام نبیوں، رسولوں، آسمانی کتابوں پر فرشتوں پر، تقدیر اور قیامت پر اور حشر ونشر پر ایمان لانا، اللہ کے شکر اور اس کی عبادت کا فرض ہونا، شرک، کفر، قتل، زنا اور جھوٹ کا حرام ہونا یہ تمام امور دین ہیں۔

اور شریعت کا معنی یہ ہے کہ ہر نبی نے اپنے زمانہ کی خصوصیات کے اعتبار سے عبادت کے جو طریقے مقرر کیے، چند چیزوں کا فرض کیا اور چند چیزوں کو حرام کیا اور چند چیزوں کو مستحب قرار دیا اور چند چیزوں کو مکروہ قرار دیا، مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں مال غنیمت حلال نہ تھا، ہماری شریعت میں حلال ہے، ان کی شریعت میں مسجد کے سوا نماز جائز نہ تھی، ہماری شریعت میں تمام روئے زمین پر نماز جائز ہے، ان کی شریعت میں تیمم کی سہولت نہ تھی، ہماری شریعت میں عذر کے وقت تیمم کرنا جائز ہے۔

دین اور شریعت کے علاوہ ملت، مذہب اور مسلک کی بھی اصطلاحات ہیں، ان کی مفصل بحث ہم نے الفاتحہ : ٤ میں بیان کردی ہے، وہاں مطالعہ فرمائیں۔

اس کے بعد فرمایا : ” جس دین کی طرف آپ مشرکین کو دعوت دے رہے ہیں وہ ان پر بہت شاق اور بھاری ہے، اللہ ہی اس دین کی طرف چن لیتا ہے جس کو چاہے اور اسی کو دین کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس دین کی طرف رجوع کرتا ہے “

مشرکین کے ایمان نہ لانے کی وجہ

مشرکین مکہ کے اوپر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بہت بھاری تھا کیونکہ اوّل تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جیسا بشر سمجھتے تھے اور ان کے لیے یہ بات باعث عار تھی کہ وہ اپنے جیسے انسان پر ایمان لے آئیں اور اس کی اطاعت کریں، ان کے خیال میں نبی کو انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھے، دوسرے یہ کہ ان کا تکبر اس بات سے مانع تھا کہ وہ ایسے شخص کی اطاعت کریں جو بہت زیادہ دولت مند ہے نہ کسی قبیلہ کا سردار ہے۔ جب کہ ان میں بہت دولت مند اور چودھری اور و ڈیرے قسم کے لوگ تھے، اس لیے وہ آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو رد کرتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے منصب رسالت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کے اس رسول کی اطاعت اور اتباع کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے منتخب فرمالیا۔

اجتباء کا معنی

اس آیت میں فرمایا : ” اللہ یجتبی الیہ من یشاء “ اس کا مصدر اجتباء ہے اور اس کا مادہ جیبی ہے، جبی کا معنی ہے : جمع کرنا، عرب کہتے ہیں :” جبیت الماء فی الحوض “ یعنی میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا، اسی طرح کہا جاتا ہے : ” جبیت الخراج “ میں نے ٹیکس جمع کرلیا اور ٹیکس کو جبایہ کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

یجبی الیہ ثمرت کل شیء۔ (القصص :57) مکہ کی طرف ہر درخت کے پھل جمع کرکے لائے جاتے ہیں۔

اور الاجتباء کا معنی ہے : کسی چیز کو چن کر اور منتخب کرکے جمع کرنا اور اپنے ساتھ ملانا، قرآن مجید میں ہے :

کذلک یجبیک ربک۔ (یوسف :6) اسی طرح تمہارا رب تم کو منتخب فرمائے گا۔ (المفردات ج ١ ص ١١٤، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

لہٰذا اس آیت کا معنی ہے : اللہ جس کو چاہے منتخب فرما کر اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور رحمت اور تکریم کے ساتھ اپنے قریب کرلیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو اس دین کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس دین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ کی طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے اور جو اللہ کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، اللہ کی کی طرف چار ہاتھ قریب ہوتا ہے اور جو اللہ کی طرف چل کر آتا ہے اللہ اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٧ ص ٤٥٥، رقم الحدیث : ١١٣٦١، مؤسسۃ الرسالۃ، ١٤٢٠ ھ، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٤٦، تاریخ بغداد ج ١١ ص ١٥، مجمع الزوائد ١٠ ص ١٩٦)

مجذوب اور سالک کی تعریفات

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے منتخب فرما کر اپنی بارگاہ میں مشرف فرماتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے منتخب فرمانے کا معنی یہ ہے کہ بندہ کی کسی سعی اور استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے فیض سے اس کو نعمتیں عطا فرماتا ہے، یہ مرتبہ انبیاء (علیہم السلام) کا ہے اور ان کے بعد صدیقین، شہداء اور عباد صالحین کا مرتبہ ہے۔ علامہ نجم الدین دایہ فرماتے ہیں :

مجذوب اس خاص بندہ کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ ازل میں منتخب فرمالیتا ہے اور اس کو اپنے محبوبین کے راستہ پر چلاتا ہے اور اس کو اپنے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور اس کو دارین (دنیا اور آخرت) سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملالیتا ہے۔

سالک ان عام بندوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے محبین کے راستہ پر چلاتا ہے جن کو ہدایت کی توفیق دی جاتی ہے، وہ اپنی لغزشوں سے توہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہوتے ہیں۔ (روح البیان ج ٨ ص ٣٩٨)

خلاصہ یہ ہے کہ صاحب الاجتباء مجذوب ہے اور صاحب الانابت سالک ہے۔

علامہ عبدالنبی بن عبدالرسول الاحمد نگر لکھتے ہیں :

مجذوب مجنون ہے اور صوفیاء کے نزدیک مجذوب وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لیے پسند اور منتخب فرما لیتا ہے اور اس کو اپنی بارگاہ انس کے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور اس کو اپنی جناب قدس پر مطلع فرماتا ہے تو اس کو کسب کی مشقت کے بغیر تمام مقامات اور مراتب حاصل ہوجاتے ہیں۔ (دستور العلماء ج ٣ ص ١٥٤۔ ١٥٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ عبدالنبی نے یہ تعریف میر سید شریف متوفی ٨١٦ ھ کی کتاب ” التعریفات “ ص ١٤٢ سے نقل کی ہے۔ البتہ میر سید شریف نے مجذوب کی تعریف میں مجنون کا لفظ نہیں لکھا ہے۔

نیز علامہ عبدالنبی احمد نگری لکھتے ہیں :

سالک وہ شخص ہے جو اپنے حال کے سبب سے مقامات پر گامزن ہو نہ کہ اپنے علم کی وجہ سے، اس کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مشاہدہ ہوتا ہے اور اس کے علم میں گمراہی میں ڈالنے والے شبہات نہیں ہوتے۔ (دستور العماء ج ٢ ص ١١٥، بیروت)

علامہ عبدالنبی نے یہ تعریف بھی میر سید شریف کی کتاب ” التعریفات “ ص ٨٤ سے لفظ بہ لفظ نقل کی ہے۔

جذب اور سلوک کا منی سکر اور صحو کے قریب ہے، علامہ عبدالکریم قشیری متوفی ٤٦٥ ھ نے سکر اور صحو کے معنی بیان کیے ہیں، ہم انکا خلاصہ لکھ رہے ہیں :

جب اللہ کے بندوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت اور اس کے خوف کا غلبہ ہوتا ہے تو ان کے دل لوگوں سے دور ہوجاتے ہیں اور یہ حالت سکر ہے، نیز لکھتے ہیں : جب ان پر اللہ تعالیٰ کے جمال کا غلبہ ہوتا ہے اور ان کی روح خوش ہوتی ہے تو یہ حالت سکر ہے اور جب بندہ کے دل پر قوی واردات ہوں تو وہ لوگوں سے منقطع ہوجاتا ہے اور یہ حالت سکر ہے اور جب یہ کیفیت منقطع ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ حالت صحو ہے اور بندہ حالت سکر میں حال کا مشاہدہ کرتا ہے اور حالت صحو میں علم کا مشاہدہ کرتا ہے۔ (الرسالۃ القشیر یۃ ص ١٠٧۔ ١٠٦، ملخصا، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

شیخ شہاب الدین عمر بن محمد سہروردی لکھتے ہیں :

جب پندہ پر حال کا غلبہ اور اس کا تسلط ہو تو وہ سکر ہے اور جب وہ اپنے اقوال اور افعال کی ترتیب کی طرف لوٹ آئے تو وہ صحو ہے۔ محمد بن خفیف نے کہا : جب محبوب کے ذکر سے دل میں جوش پیدا ہو توہ سکر ہے اور الواسطی نے کہا : وجد کے چار مقام ہیں : (١) ذھول (٢) حیرت (٣) سکر (٤) پھر صحو، جیسے ایک آدمی پہلے سمندر کے متعلق صرف سنتا ہے، پھر اس کے قریب ہوتا ہے، پھر اس میں داخل ہوتا ہے، پھر اس کو موجیں پکڑ لیتی ہیں، پس اس بناء پر جس شخص کے دل میں وجد کا اثر باقی رہے اس پر سکر کا اثر ہے اور جس کی ہر چیز اپنے مستقر کی طرف لوٹ آئے وہ صاحب صحو ہے۔ (عوارف المعارف ص ٢٤٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)

امام رازی کے نزدیک اصول اور عقائد میں قیاس جائز نہیں اور فروع اور احکام میں قیاس جائز ہے

امام فخرالدین محمد بن عمررازی شافعی متوفی ٠٦ ھ نے نفی قیاس پر ایک اور دلیل ذکر کی ہے، وہ لکھتے ہیں :

قیاس کا انکار کرنے والوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے الشوریٰ : ١٣ میں یہ خبر دی ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا اس پر اتفاق ہے کہ دین کو اس طرح قائم کرنا واجب ہے کہ اس سے اختلاف اور تنازع نہ پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بطور احسان یہ ذکر فرمایا کہ اس سے ان کی اس دین کی طرف رہنمائی کی ہے جو تفرق اور مخالفت سے خالی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ قیاس بہت زیادہ افتراق اور انتشار کا دروازہ کھولتا ہے، کیونکہ مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کی بنیاد قیاسی دلائل پر رکھی وہ مختلف فرقوں میں بٹ گئے اور قیامت تک ان کے درمیان اتفاق پیدا ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، پس واجب ہوا کہ قیاس کرنا حرام اور ممنوع ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٨٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی کی اس تفسیر سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ وہ مطلقاً قیاس کے منکر ہیں، وہ در حقیقت دین کے اصول اور عقائد میں قیاس کو باطل کہتے ہیں اور فروع اور احکام میں قیاس کو جائز کہتے ہیں، الحشر : ٢ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں :

ہم نے اپنی کتاب ” المحصول من انصول الفقہ “ میں لکھا ہے کہ قیاس حجت ہے، سو ہم ان دلائل کو یہاں ذکر نہیں کریں گے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٥٠٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی نے ” الحصول “ میں قیاس کے حجت ہونے پر جو دلائل پیش کیے ہیں، ہم بہت اختصار کے ساتھ ان کا خلاصہ پیش کررہے ہیں تاکہ اس مسئلہ میں امام رازی کا مؤقف واضح ہوجائے۔

امام رازی فرماتے ہیں :

قاضی ابوبکر اور ہمارے جمہور محققین کے نزدیک قیاس کے مختار تعریف یہ ہے :

ایک معلوم کو دوسرے معلوم پر کسی حکم کے اثبات یا نفی کے لیے محمول کرنا جب کہ ان دونوں میں کوئی امر جامع اور مشترک ہو۔

اس کی دوسری تعریف حسن بصری سے منقول ہے کہ اصل کے حکم کو فرع پر لاگو کرنا کیونکہ مجتہد کے نزدیک دونوں میں حکم کی علت مشترک ہے۔ یہ تعریف زیادہ واضح ہے۔ (المحصول ج ٣ ص ١٠٧٩۔ ١٠٧١، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

امام رازی نے حسب ذیل آیت سے قیاس کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے :

فاعتبروا یاولی الابصار (الحشر :2)

اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو

وجہ استدلال یہ ہے کہ اعتبار اور عبرت کا معنی ہے : عبور کرنا اور تجاوز کرنا، یعنی اصل کے حکم سے فرع کے حکم کی طرف تجاوز کرو، اس کے علاوہ مزید یہ آیات ہیں :

ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار (آل عمران :13، النور :44) بیشک اس میں آنکھوں والوں کے لیے عبرت ہے (یعنی نصیحت ہے) ان لکم فی الانعام لعبرۃ۔ (النحل :66، النور :21) بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں ضرور عبرت ہے یعنی نصیحت ہے۔ (المحصول ج ٢ ص ١٠٩٠۔ ١٠٨٩)

امام رازی نے حسب ذیل احادیث سے بھی قیاس کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے :

حضرت عمر فاروق (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : آیا روزہ دار بوسا لے سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم پانی سے غرارے کرو، پھر کلی کرو تو کیا تم اس پانی کو پینے والے ہو ؟ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣٨٥، مصنف ابن ابی شبیہ ج ٣ ص ٦١۔ ٦٠، مسند احمد ج ١ ص ٢١، المستدرک ج ١ ص ٤٣١، سنن بیہقی ج ٤ ص ٢٦١، جامع المسانید والسنن مسند عمر بن الخطاب رقم الحدیث : ٦٢ )

وجہ استدلال یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غرارے کو بوسے پر قیاس فرمایا کہ جس طرح پانی کو نگلے بغیر غرارے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اسی طرح بغیر انزال کے بوسے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (المحصول ج ٣ ص ١١٠٤۔ ١١٠٣)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩٥٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٤٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣١٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٧٧٢) اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حق کو بندہ کے حق پر قیاس کیا ہے۔ (المحصول ج ٣ ص ١١٠٥)

کیونکہ عبادات ہدنیہ میں نیابت جائز نہیں ہے اس لیے یہ حدیث روزے کے فدیہ پر محمول ہے، عبادات بدنیہ میں نیابت جائز نہ ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے :

امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالہل بن عمر (رض) سے سوال کیا گیا : کیا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے یا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا : کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ سکتا ہے اور نہ کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ (موطا امام مالک ج ١ ص ٢٧٩، کتاب الصیام رقم الحدیث : ٤٣، الرقم المسلسل : ٦٨٨، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

اور فدیہ کے وجوب پر دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہوں تو اس کے ہر روزے کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٧١٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٥٧، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٢٧١٤)

امام رازی فرماتے ہیں :

قیاس سے استدلال کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے، کیونکہ بعض صحابہ نے قیاس پر عمل کیا ہے اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہیں کیا، بعض صحابہ کے قیاس پر عمل کرنے کی دلیل یہ ہے : حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کی طرف لکھا : اشباء اور نظائر کی معرفت حاصل کرو اور اپنی رائے سے دوسرے امور کو ان پر قیاس کرو۔ (المحصول ج ٣ ص ١١٠٦)

اس تفصیل سے ظاہرہوگیا کہ امام رازی احکام شرعیہ فرعیہ میں قیاس سے استدلال کرنے کے قائل ہیں اور الشوریٰ : ١٣ میں جہ انہوں نے قیاس پر انکار کیا ہے اس سے مراد اصول اور عقائد میں قیاس سے استدلال کرنا ہے، البتہ انہوں نے الشوریٰ ١٠ میں جو قیاس کا رد کیا ہے اس کی توجیہ مشکل ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 12