أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ مِنۡ اٰيٰتِهٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَثَّ فِيۡهِمَا مِنۡ دَآبَّةٍ‌ ؕ وَهُوَ عَلٰى جَمۡعِهِمۡ اِذَا يَشَآءُ قَدِيۡرٌ۞

ترجمہ:

اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنا ہے اور ان جانداروں کو پیدا کرنا ہے جو اس نے آسمانوں اور زمینوں میں پھیلا دیئے ہیں اور وہ جب چاہے ان کو جمع کرنے پر قادر ہے۔

الشوریٰ : ٢٩ میں فرمایا : ” اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنا ہے اور ان جانداروں کو پیدا کرنا ہے جو اس نے آسمانوں اور زمینوں میں پھیلا دیئے ہیں اور وہ جب چاہے ان کو جمع کرنے پر قادر ہے۔ “

مشکل الفاظ کے معانی

اس آیت میں ” دابۃ “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : چوپایا، اور زمینوں میں تو چوپایوں کو پھیلانا متصور ہے، آسمانوں میں چوپایوں کو پھیلانا کس طرح متصور ہوگا، اس لیے مفسرین نے کہا : اس آیت میں دابہ مجاز پر محمول ہے یعنی زندہ اور جان دار اور فرشتے بھی زندہ اور اور جاندار ہیں، وہ حرکات کرتے ہیں اور آسمانوں میں اڑتے ہیں اور زمین پر بھی چلتے ہیں۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ” وما بث فیھما “ بث کا معنی کسی چیز کو متفرق کرنا اور پھیلانا، جیسے ہوا مٹی کو اڑا کر پھیلا دیتی ہے اور انسان کے نفس میں غم اور خوشی کی کیفیات ظاہر ہوتی ہیں اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جو چیز موجودنہ ہو وہ اس کو موجود کردیتا ہے۔

الشوریٰ : ٢٩ کے اسرار

اس آیت میں سماوات سے ارواح کی طرف اشارہ ہے اور ارض سے اجسام کی طرف اشارہ ہے اور دابۃ (چوپایوں) سے نفوس اور قلوب کی طرف اشارہ ہے اور ان میں سے کسی کے درمیان کوئی مناسبت نہیں ہے، کیونکہ روحوں اور جسموں کے درمیان بہت فرق ہے، جسم اسفل السافلین میں سے ہے اور روح اعلیٰ علیین میں سے ہے اور نفس دنیاوی شہوات کی طرف مائل ہوتا ہے اور قلب اخروی ربانی شواہد کی طرف مائل ہوتا ہے، نفس دنیا اور اس کی زینت کو طلب کرتا ہے اور قلب اخروی درجات کو طلب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کے حشر پر قادر ہے۔ جسموں کا حشر یہ ہے کہ ان کو قبروں سے نکال کر محشر کی طرف جمع کیا جائے اور روحوں کا حشر یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں روحوں کو عالم روحانیت کی طرف جمع کیا جائے، بایں طور کہ نفسانی لذتوں اور شہوتوں کے حجابات سے روح کو معرفت کے انوار کی طرف منتقل کیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 29