أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِسۡتَجِيۡبُوۡا لِرَبِّكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ‌ؕ مَا لَكُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ يَّوۡمَئِذٍ وَّمَا لَكُمۡ مِّنۡ نَّكِيۡرٍ ۞

ترجمہ:

تم اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جو اللہ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ہے، اس دن تمہارے لیے نہ کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ تمہارے لیے انکار کی گنجائش ہوگی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

تم اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جو اللہ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ہے، اس دن تمہارے لیے نہ کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ تمہارے لیے انکار کی گنجائش ہوگی پس اگر یہ اعراض کریں تو ہم نے آپ کو ان کا نگران بنا کر نہیں بھیجا، آپ کے ذمہ تو صرف پیغام کو پہنچادینا ہے اور بیشک جب ہم انسان کو اپنے پاس سے کوئی رحمت چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اگر ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آئے تو بیشک انسان بہت ناشکرا ہے تمام آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی حکومت ہے، وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جس کو چاہے بیٹے عطا فرمائے یا جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں عطا کردے اور جس کو چاہے بےاولاد کردے، وہ بےحد علم والا، بہت قدرت والا ہے (الشوریٰ :50-47)

وعد اور وعید سنانے کے بعد انسان کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ اور آخرت میں اجروثواب کی بشارت دی تھی اور ایمان نہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی پر قیامت کے دن عذاب کی وعید سنائی تھی اور ان خبروں سے مقصود یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے، اس لیے یہاں فرمایا ہے کہ تم اس دن کے آنے سے پہلے ایمان لے آئو جو ٹلنے والا نہیں ہے، اس دن سے مراد موت کا دن ہے، یا قیامت کا دن ہے اور یہ دونوں دن ٹلنے والے نہیں ہیں اور موت کے وقت انسان عاذاب کے فرشتوں کو دیکھ لیا ہے اور قیامت کے دن بھی غیب کی خبروں کے وقع کا مشاہد کرلیتا ہے، اس لیے موت کے وقت ایمان لانامفید ہوگا اور نہ قیامت کے دن اور اس دن اللہ کے عذاب سے انسان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی اور نہ قیامت کے دن کوئی جائے پناہ ہوگی اور اگر انسان اس دن، دنیا میں کیے ہوئے برے کاموں کا انکار کرے گا تو اس کا یہ انکار کرنا بھی اس کے لیے کچھ مفید نہیں ہوگا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو اس سے کوئی خوف و خطرہ نہیں ہے، ہم نے آپ کو ان کے اوپر نگران اور محافظ بنا کر نہیں بھیجا، آپ کے ذمہ تو صرف دین اسلام کو پہنچادینا تھا سو وہ آپ نے پہنچا دیا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 47