مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

غلط افکار ونظریات سے اجتناب لازم

1-تکفیر دیابنہ کی باطل تاویل کر کے کفر دیابنہ پر پردہ ڈالنا یقینا غلط ہے۔کفر کلامی کی تاویل کفر ہے۔ایسے غلط نظریہ سے بچنا لازم ہے۔کفر کلامی کی تاویل کرنے والے پر حکم کفر عائد ہو گا۔ایسے لوگوں کی صحبت زہر قاتل ہے۔

2-کسی سنی تحریک یا سنی ادارہ پر طعن وتشنیع یا ان کے وابستگان پر تبرا بازی بھی غلط ہے۔کسی صحیح دلیل کے سبب کوئی کسی سے پرہیز کرے تو شریعت اسلامیہ میں ایسی بعض صورتیں موجود ہیں,لیکن شخصی طور پر کسی مومن کی عیب جوئی وبدگوئی ناجائز ہے۔اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔

3-اسماعیل دہلوی کی تکفیر فقہی کے سبب امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان پر تبرا بازی بھی غلط ہے۔امام اہل سنت حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے بھی اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی کا فتوی دیا تھا۔

4-جو حضرات ٹی وی کے بارے میں قول جواز پر عمل کرتے ہیں۔ان کو صرف تبلیغ دین ہی کے لئے ٹی وی کا استعمال کرنا چاہئے۔دیگر امور کے لئے ٹی وی کے استعمال سے بچنا چاہئے۔

فقہ شافعی میں بعض امور سے محض اس لئے پرہیز کا حکم ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں وہ امر ممنوع ہے,حالاں کہ فقہ شافعی میں وہ امر جائز ہے۔دراصل فقہائے اسلام کے اختلاف کے سبب ایسا حکم دیا جاتا ہے۔

جب کسی فقہی ظنی مسئلہ میں فقہائے احناف کا اختلاف ہو تو ایسی صورت پر عمل کا حکم ہے کہ اختلافی صورت سے پرہیز ہو جائے۔ٹی وی کا جواز بھی مختلف فیہ ہے۔تبلیغ دین کی ضرورت سمجھ کر مجوزین فقہائے کرام کے قول پر عمل کیا جائے تو بھی دیگر امور کے لئے ٹی وی کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔

5-اقوال علما کا صرف وہی مفہوم مراد لیا جا سکتا ہے جو اصول شرع کی روشنی میں صحیح ہو۔جو مفہوم شرعا غلط ہو,وہ ہرگز مراد نہیں لیا جا سکتا۔

6-داؤد ظاہری(202-270)نےقیاس کا انکار کر دیا اور وہ آیات قرآنیہ واحادیث طیبہ کا ظاہری مفہوم مراد لیتا تھا۔حکم شرعی کی حکمتوں کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔علمائے اہل سنت وجماعت نے داؤد ظاہری کے نظریہ کو مسترد کر دیا اور انکار قیاس کے سبب اس پر گمرہی کا حکم عائد ہوا۔

7-عہد حاضر میں بعض سنی حضرات بعض اکابر کے قول کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ فلاں حضرت نے فلاں جماعت, فلاں ادارہ یا فلاں شخص کے بارے میں ایسا ایسا فرمایا ہے۔اگر ایسے اقوال کے ظاہری معانی مراد لئے جائیں تو وہ موافق شرع نہیں,پس ایسے کلام کی وہی تاویل مراد لی جائے گی جو شریعت اسلامیہ کے موافق ہو۔

قائلین بھی محکوم ہیں۔شریعت اسلامیہ حاکم ہے۔اگر صحیح تاویل نہ کی گئی تو خود قائلین پر حکم شرعی وارد ہو گا۔عہد حاضر کے متعدد اکابر کے متعدد اقوال قابل تاویل ہیں۔امت مسلمہ کی طرح تمام اکابر علمائے کرام بھی شریعت اسلامیہ کے محکوم ہیں۔کوئی عالم یا کوئی ولی شریعت اسلامیہ سے بالاتر نہیں۔

سوال ہونے پر خود قائلین بھی تاویل کرتے ہیں۔بعض لوگوں کو صلح کلی کہا گیا۔سوال ہونے پر قائلین نے تاویل کی کہ ہم نے عملی صلح کلیت مراد لی ہے۔اعتقادی صلح کلیت ہماری مراد نہیں۔لا مناقشۃ فی الاصطلاح۔گرچہ اصطلاح سازی کا ہر ایک کو اختیار ہے,لیکن اپنی اصطلاح سے دوسروں کو آشنا کرنا بھی ضروری ہے,ورنہ لوگ مروجہ اصطلاح مراد لیں گے۔

8-اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے رقم فرمایا کہ عہد صحابہ کرام سے عہد مجتہدین اربعہ تک کوئی ایسا مجتہد نہیں جس کا کوئی قول خلاف جمہور ,مرجوح وضعیف اور شاذ نہیں۔(فتاوی رضویہ:جلد 18-ص492۔ج22ص515جامعہ نظامیہ لاہور)

اسی طرح عہد حاضر کے علمائے کرام کے بھی بعض اقوال مرجوح وشاذ اور خلاف جمہور ہو سکتے ہیں۔اہل علم کو یہ بھی معلوم ہے کہ مرجوح وشاذ اور خلاف جمہور اقوال متروک ہوتے ہیں۔ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ایسے اقوال پر عمل کرنا یا عمل آوری کے لئے ماحول سازی کرنا غلط ہے۔ان شاء اللہ تعالی رفتہ رفتہ ہم حالات پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔

بفضلہ تعالی وبعطاء رسولہ الاعلی علیہ التحیۃ والثنا ہم اقوال اکابر کی صحیح تاویلات پر قادر ہیں۔ان شاء اللہ تعالی حسب ضرورت تاویلات رقم کی جائیں گی۔تاویلات کے لئے شرعی اصول وضوابط معیار ہیں۔کسی کی پسند وناپسند کا اس میں کچھ دخل نہیں۔

9-نیم رافضیت بھی بلائے عظیم ہے۔جس سے بعض سنی حضرات متاثر ہو رہے ہیں۔

10-اللہ تعالی ہر صدی میں مجددین کو مقرر فرماتا ہے,تاکہ وہ دین اسلام میں رواج یافتہ مفاسد اور غلط افکار ونظریات کو دور کریں۔مجددین کی بعثت اہل سنت وجماعت میں ہوتی ہے۔مذہب اہل سنت وجماعت کے متبعین میں بھی مفاسد رونما ہو جاتے ہیں۔کچھ غلط امور رسم ورواج کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

برصغیر کے مسلمانان اہل سنت وجماعت متعدد ذیلی طبقات میں منقسم ہیں۔ہر ذیلی طبقہ میں کچھ مفاسد رواج پا چکے ہیں۔ہر ذیلی طبقہ کے با شعور علمائے کرام کو چاہئے کہ اپنے طبقہ میں رواج یافتہ مفاسد کو دور کریں۔ہر طبقہ کے محققین ومدققین کی خموشی قابل تعجب ہے۔اب رد بدمذہباں متروک ہو چکا ہے اور رد سنیاں مقبول ہو چکا ہے۔رد بدمذہبیت کی طرف توجہ دی جائے۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

چند سالوں قبل سلسلہ اشرفیہ کے بعض وابستگان میں نیم رافضیت کا اثر ظاہر ہوا,پس سلسلہ اشرفیہ کے مشہور زمانہ اور کہنہ مشق قلم کار حضرت علامہ سیف خالد اشرفی دام ظلہ القوی بلا خوف لومۃ لائم میدان میں قدم رنجہ ہوئے۔ممدوح گرامی نے اپنی تحریری کاوشوں کے ذریعہ نیم رافضیت کو نیم مردہ کر دیا ہے۔امید کہ جلد ہی نیم رافضیت کا جنازہ اٹھے۔موصوف کا تحریری سلسلہ جاری ہے۔

علامہ موصوف کی ہمت وجرأت,استقلال وپامردی,ان کے حوصلہ اور جذبہ کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔سوغات تشکر کے ساتھ دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالی موصوف کی دستگیری فرمائے,توفیق صالح عطا فرمائے اور ان کی اصلاحی خدمات کو قبول فرما کر دونوں جہاں کے حسنات وبرکات اور خیرات وکرامات سے سرفراز فرمائے۔آمین

ہر ذیلی طبقہ میں ایسے شیر دل عالموں کی ضرورت ہے,تاکہ وہ اپنے طبقہ میں موجود غلط رسم ورواج اور فاسد فکر وخیال کو نیست ونابود کر سکیں۔علمائے کرام اپنے فرض منصبی پر غور فرمائیں اور آگے بڑھیں۔مجھے یہ بخوبی معلوم ہے کہ ہر ذیلی طبقہ میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اصلاح پسندوں پر طنز کرتے ہیں اور انھیں برا بھلا کہتے ہیں,لیکن باشعور علمائے دین کو اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔

حضرات صحابہ وتابعین اور اخیار وصالحین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے دین اسلام کے تحفظ وبقا کے لئے اپنی قیمتی جان کی قربانی دی۔کیا ما وشما دین وسنیت کی خاطر اپنی ذاتی شان کی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟

حق تو یہ ہے کہ اس سے آپ کی شان دوبالا ہو گی۔اصل حقائق واضح فرمائیں اور بارگاہ خداوندی اور دربار مصطفوی سے انعامات شاہانہ اور الطاف خسروانہ حاصل کریں۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:20:جولائی 2021