أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَهُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ كَرِيۡمٌۙ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم اس سے پہلے فرعون کی قوم کو آزما چکے ہیں، ان کے پاس معزز رسول آئے تھے

الدخان : ١٧ میں فرمایا :” بیشک ہم اس سے پہلے فرعون کی قوم کو آزما چکے ہیں، ان کے پاس معزز رسول آئے تھے “

قوم فرعون کو آزمائش میں ڈالنے کی توجیہ

اس آیت میں فرمایا ہے : ہم نے قوم فرعون کی آزمائش کی تھی، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ امتحان اور آزمائش تو وہ شخص لیتا ہے جس کو عواقب امور کا پتہ نہ ہو وہ شخص کامیاب ہوگا یا ناکام، اللہ سبحانہ ‘ تو علام الغیوب ہے، اس کو معلوم تھا کہ جب وہ فرعون اور اس کی قوم کو اپنے احکام کی اطاعت کا حکم دے گا تو وہ اس کی اطاعت کریں گے یا نہیں کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کے انہیں آزمانے کی کیا توجیہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے قوم فرعون کے ساتھ وہ عمل کیا جو کسی قوم کے ساتھ اس کا امتحان لینے والا کرتا ہے، ہم نے ان کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا، انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو ہم نے ان کو غرق کرکے ہلاک کردیا، سو اسی طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ کی قوم آپ پر ایمان نہیں لائی تو ہم اس کو بھی ہلاک کردیں گے۔

باقی رہا یہ کہ اللہ سبحانہ ‘ کو تو پہلے معلوم تھا کہ فرعون کی قوم ایمان نہیں لائے گی، وہ اس قوم کو ویسے ہی ہلاک کردیتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیج کر اس کا امتحان اس لیے لیا تاکہ قیامت کے دن وہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس کسی نبی کو بھیجا ہی نہیں، اگر ہمارے پاس کسی نبی کو بھیجا جاتا تو ہم اس پر ایمان لے آتے اور دنیا میں غرق کیے جانے اور آخرت میں دوزخ کے عذاب سے بچ جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 17