أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ اجۡتَـرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَهُمۡ كَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡيَاهُمۡ وَمَمَاتُهُمۡ‌ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ۞

ترجمہ:

جن لوگوں نے (برسرعام) گناہ کیے ہیں کیا انہوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم ان کی زندگی اور موت کو مؤمنین اور صالحین کے برابر کردیں گے، یہ کیسا بُرا فیصلہ کررہے ہیں

الجاثیہ : ٢١ میں فرمایا : ” جن لوگوں نے (برسرعام) گناہ کیے ہیں کیا انہوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم ان کی زندگی اور موت کو مؤمنین اور صالحین کے برابر کردیں گے، یہ کیسا بُرا فیصلہ کررہے ہیں “

جرح اور اجتراح کا معنی

اس آیت میں ” اجترحوا “ کا لفظ ہے، اس کا مادہ جرح ہے، جرح کا معنی ہے : زخمی کرنا، کمانا اور کسب کرنا، علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الجرح کا معنی ہے : کھال میں بیماری کا اثر ظاہر ہونا اور زخم، ” جرحہ “ کا معنی ہے : اس کو زخمی کیا۔ قرآن مجید میں ہے :

والجروح قصاص۔ (المائدہ :45)

اور زخموں میں بدلہ ہے۔

شکاری کتوں کو، چیتوں کو اور چیرنے پھارنے والے پرندوں کو جارحۃ کہا جاتا ہے اور اس کی جمع جوارح ہے، کیونکہ جانور دوسروں کو زخمی کرتے ہیں یا کسب کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

وما علمتم من الجوارح مکلبین۔ (المائدہ :4)

اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھا لیا اس حال میں کہ تم ان کو شکار کرنا سکھانے والے ہو۔

انسان کے کسب کرنے والے اعضاء کو جوارح کہا جاتا ہے اور ان کو ان شکاری جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور الاجتراح کا معنی ہے : گناہ کا کسب کرنا یا گناہ کمانا، قرآن مجید میں ہے :

ام حسب الذین اجترحوا السیات۔ (الجاثیہ :21)

کیا جن لوگوں نے گناہ کیے ہیں انہوں نے گمان کیا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ١١٨۔ ١١٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ٤١٨ ھ)

کفار کی زندگی اور موت کا مسلمانوں کے برابر نہ ہونا

سیئات سے مراد کفر اور گناہ کبیرہ ہیں، یعنی کیا کفار اور فساق نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم ان کو ایمان والوں اور نیک اعمال کرنیوالوں کے برابر کردیں گے اور ان کو وحی اجروثواب اور عزت اور مرتبہ دیں گے جو مؤمنین اور صالحین کو دیں گے اور ان کی زندگی اور موت مؤمنین اور صالحین کی زندگی اور موت کی مثل ہوگی، ہرگز نہیں، یہ دونوں فریق برابر نہیں ہیں، کیونکہ مؤمنین اور صالحین کو زندگی اور موت میں ایمان اور اطاعت کا شرف حاصل ہوتا ہے اور موت کے وقت وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی رضا میں ہوتے ہیں۔ ان کی روح قبض کرنے کے لیے فرشتے بہت حسین و جمیل صورتوں میں آتے ہیں اور بہت آسانی سے ان کی روح قبض کرتے ہیں جیسے گندھے ہوئے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے اور کافر کی روح قبض کرنے کے لیے بہت ڈرائونی شکل میں فرشتے آتے ہیں اور بہت سختی کے ساتھ ان کی روح نکالتے ہیں جیسے کیچڑ اور گارے میں پھنسی ہوئی کانٹوں کی شاخ کو نکالا جاتا ہے، حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کسی شخص پر موت کا وقت آتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پس اگر وہ شخص نیک ہو تو فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے پاکیزہ روح ! تو پاکیزہ جسم میں تھی تو تعریف اور تحسین کیے جانے کی حالت میں نکل آ، تجھے خوش اور راحت کی بشارت ہو اور رب کے ناراض نہ ہونے کی خوشی ہو، اس سے یونہی کا جاتا رہے گا حتیٰ کہ اس کی روح نکل آئے گی۔ پھر اس کو آسمان کی طرف اوپر لے جایا جائے گا اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا : یہ کون ہے ؟ فرشتے کہیں گے : یہ فلاں شخص ہے تو کہا جائے گا کہ پاکیزہ روح کو خوش آمدید ہو یا پاکیزہ جسم میں تھی تو تعریف و تحسین کے ساتھ داخل ہو اور راحت کی بشارت کو قبول کر اور رب کے ناراض ہونے کو، اس سے یونہی کہا جاتا رہے گا، حتیٰ کو وہ آسمان میں پہنچ جائے گا جس میں اللہ سبحانہ ‘ ہے اور جب فرشتے کسی فاجر کی روح قبض کرنے کے لیے جائیں تو اس سے کہتے ہیں : اے خبیث روح ! تو خبیث جسم میں تھی، تو اس حال میں نکل کہ تری مذمت کی جارہی ہے، تیرے لیے گرم پانی اور پیپ (کے پینے) اور اسی طرح کے اور عذابوں کی بشارت ہے، اس سے یونہی کہا جاتا رہے گا، حتیٰ کے وہ روح نکل آئے گی، پھر اس کو اوپر آسمان کی طرف لے جایا جائے گا، پھر اس کے متعلق پوچھا جائے گا : یہ کون ہے ؟ تو بتایا جائے گا کہ یہ فلاں شخص ہے، تو کہا جائے گا : یہ خبیث روح جو خبیث جسم میں تھی اس کو خوش آمدید نہ ہو، تو مذموم ہونے کے حال میں واپس جا، تیرے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، پھر اس کو آسمان سے بھیج دیا جائے گا اور وہ قبر میں چلی جائے گی۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٢، مسند احمد ج ٢ ص ٣٦٤ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے اور انہوں نے اس کی خوشبو کا ذکر کیا، تو وہ فرشتے اس روح کو اوپر لے جاتے ہیں اور آسمان کے فرشتے کہتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح زمین کی جانب سے آئی ہے۔ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو اور جس جسم میں تو تھی اس پر بھی اللہ کی رحمت ہو، پھر اس روح کو اس کے رب کے پاس لے جایا جائے گا، پھر اللہ فرمائے گا : اس روح کو اس کی آخری معیاد تک لے جائو اور جب کافر کی روح نکلی ہے، پھر حضرت ابوہریرہ نے اس کی بدبو اور لعنت کا ذکر کیا اور آسمان والے کہتے ہیں کہ یہ خبیث روح زمین کی جانب سے آئی ہے، پھر کہا جائے گا : اس کو اس کی آخری معیاد تک لے جائو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٧٢)

حضرت البراء بن عازب (رض) نہ نے ایک طویل حدیث میں بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کی روح جسم سے اس طرح نکلتی ہے جس طرح مشک سے پانی کے قطرے نکلتے ہیں اور کافر کی روح اس کے جسم سے اس طرح نکلتی ہے جس طرح لوہے کی سلاخ بھیگے ہوئے اون سے نکلتی ہے۔ الحدیث : (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٥٣، مسند احمد ج ٤ ص ٢ ٨٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا : (کامیاب) زندگی وہ ہے جو تمہاری زندگی ہے اور (کامیاب) موت وہ ہے جو تمہاری موت ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب فتح مکہ، رقم الحدیث : ٨٦، الرقم بلاتکرار : ١٧٨٠)

ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ مومن صالح کی زندگی اور موت میں اور کافر اور فاجر کی زندگی میں بہت فرق ہے اور ان دونوں کی زندگی اور موت میں بہت بڑا فرق ہے اور وہ ہرگز ایک دیوسرے کے مساوی نہیں ہیں۔

کفار قریش یہ کہتے تھے کہ ہم دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ اچھے حال میں ہیں، ہمارے پاس مال و دولت ہے، ہمارے ماتحت زیادہ اور ہمارے پاس زیادہ شوکت اور طاقت ہے اور جو دنیا میں زیادہ خوش حال اور طاقتور ہو وہی آخرت میں بھی خوش حال اور طاقتور ہوگا، لہٰذا اگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ان کی آخرت اچھی ہوگی تو ہماری آخرت بھی اچھی ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کا رد فرمایا کہ جن لوگوں نے (برسر عام) گناہ کیے ہیں، کیا انہوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم ان کی زندگی اور موت کو مؤمنین اور صالحین کے برابر کردیں گے، یہ کیسا بُرا فیصلہ کررہے ہیں اس کے علاوہ اس مضمون کی حسب ذیل آیت ہیں :

انا لننصرر سلنا والذین امنوا فی الحیوۃ ادینیا ویوم یقوم الاشھاد یوم لا ینفع الظلمین معذرتھم ولھم اللعنۃ ولھم سوء الدار (المومن :51-52)

بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور مؤمنوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوگے جس دن ظالموں کو ان کی معذرت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ان کے لیے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لیے بُرا گھر ہوگا

افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون (القلم : 35-36)

کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کے برابر کردیں گے تمہیں کیا ہوا، تم کیسا فیصلہ کررہے ہو ام نجعل الذین امنوا وعملو الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار (ص :28) کیا ہم ایمان والوں کو اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے برابر کردیں گے جو زمین میں فساد کرتے رہے ہیں یا ہم متقین کو فجار کے برابر کردیں گے

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 21