أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَمَّا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَفَلَمۡ تَكُنۡ اٰيٰتِىۡ تُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ فَاسۡتَكۡبَرۡتُمۡ وَكُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّجۡرِمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جن لوگوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا :) کیا تمہارے سامنے میری آیات نہیں پڑھی جاتی تھیں، پس تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے

قیامت کے متعلق کفار کے دو گروہ

الجاثیہ : ٣١ میں فرمایا : ” اور جب (تم سے) کہا جاتا کہ بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے، ہم محض گمان کرتے تھے اور ہم یقین کرنے والے نہ تھے “

اس آیت میں بتایا ہے کہ ان کافروں کا یہ گمان تھا کہ قیامت آئے گی اور ان کو یقین نہیں تھا، گویا ان کو قیامت کے وقوع میں شک تھا، جب کہ قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے منکر تھے، مثلاً یہ آیت ہے :

وقالو اماھی الا حیاتنا الدنیا (الجاثیہ : 24)

اور انہوں نے کہا : ہماری زندگی تو صرف یہی دینا کی زندگی ہے۔

ان آیتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے متعلق کفار کے دو گروہ تھے، ایک گروہ قیامت کا بالکل منکر تھا اور دوسرے گروہ کو قیامت کے وقوع میں شک تھا۔ اس آیت میں ” ظن “ کا لفظ ہے، ظن اس راجح اعتقاد کو کہتے ہیں جس میں اس اعتقاد کی نفی کا بھی احتمال ہو اور وہ عرف میں یقین اور شک دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یقین اس اعتقاد جازم کو کہتے ہیں جس کی نفی کا بالکل احتمال نہ ہو اور یہ اعتقاد دلیل میں غور و فکر کرنے سے حاصل ہوا ہو، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے علم کو یقین نہیں کہتے۔

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية آیت نمبر 31